کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 177
عَلَیْکُمْ، وَلَوْ کُتِبَ عَلَیْکُمْ مَا قُمْتُمْ بِہِ … الحدیث)) ’’تمہارے ذوق و شوق کو دیکھ کر مجھے یہ خوف محسوس ہوا کہ کہیں یہ تم پر فرض نہ کر دی جائے اور اگر تم پر فرض کر دی گئی تو تم اس کو ادا نہیں کر سکو گے … (پس تم …)۔‘‘ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کی روایت کے ان طُرق سے یہ واضح ہوا کہ ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نفلی نماز کو (اور یہاں نفلی نماز سے مراد نماز تراویح ہے، گویا تراویح کو) گھر پر ادا کرنے کو (باجماعت ادا کرنے سے) افضل قرار دیا۔ ٭ آپ نے تین راتوں کے بعد اسے باجماعت ادا کرنے سے اس لیے گریز فرمایا کہ کہیں نماز تراویح کو فرض نماز کا درجہ نہ دے دیا جائے۔ ٭ اگر اسے فرض کر دیا گیا تو اس کی پابندی کے ساتھ ادائیگی ناممکن ہو گی۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی مذکور الصدر حدیث، جس میں قیام اللیل (نماز تراویح) کو مکمل طور پر جماعت کے ساتھ پڑھنے کو پوری رات کے قیام (عبادت) کے برابر قرار دیا گیا ہے اور حدیث زید بن ثابت میں نماز تراویح کو باجماعت ادا کرنے کے مقابلے میں انفرادی طور پر گھر میں پڑھنے کو افضل قرار دیا گیا ہے۔ یوں دونوں حدیثوں میں بظاہر ٹکراؤ (تضاد) قرار دیا گیا ہے۔ شارحینِ حدیث نے ان کے درمیان ایک تطبیق یہ دی ہے، جسے اکثر علماء نے راجح قرار دیا ہے، کہ باجماعت ادا کرنے والے کو پوری رات کے قیام (عبادت) کا ثواب ملے گا (جیسا کہ پہلی حدیث کے الفاظ ہیں ) اور گھر میں نماز ادا کرنے والے کو اس سے بھی زیادہ ثواب ملے گا (جیسا کہ حدیث میں اس