کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 172
قرآن کریم کے سارے اعجاز، فصاحت و بلاغت اور اس کے انذار و تبشیر کا بیڑا غرق کر دیا جائے اور اسی طرح نماز کی ساری روح مسخ کر دی جائے اور پھر امید رکھی جائے کہ ہمیں اجروثواب ملے گا، اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے گا اور ہم اس کے قرب خصوصی کے مستحق ہوجائیں گے۔ یہ سراسر بھول اور فریب نفس ہے، شیطان کا بہکاوا اور اس کا وسوسہ ہے، ہماری نادانی اور جہالت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ رمضان کے قیام اللیل (تراویح) کی وہ فضیلت ہمیں حاصل ہو جو نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے کہ: ((مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ)) ’’جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان (کی راتوں ) میں قیام کیا، اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔‘‘[1] تو اس کے لیے ضروری ہے کہ قرآن مجید میں حسن تجوید اور ترتیل کا اور اسی طرح نمازوں میں ارکان اعتدال کا اہتمام کریں ، جیسا کہ ان دونوں باتوں کی تاکید ہے۔ اس کے بغیر قرآن کا پڑھنا سننا کار ثواب ہے نہ تراویح و شبینوں کے اہتمام ہی کی کوئی اہمیت ہے۔ تراویح میں قرآن کریم کا ختم کرنا مستحب عمل ہے دراصل ہمارے ذہنوں میں ایک بات یہ بیٹھی ہوئی ہے کہ تراویح میں قرآن مجید کو مکمل ختم کرنا اور مکمل سننا ضروری ہے جبکہ مسئلہ ایسا نہیں ہے۔ رمضان المبارک میں
[1] صحیح البخاري، صلاۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان،حدیث: 2009۔