کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 168
2. اس سے معلوم ہوا کہ یہ قیام اللیل فرض یا سنت مؤکدہ نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت نفلی نماز کی ہے۔ 3. یہ بھی معلوم ہوا کہ عہد رسالت و عہد صحابہ میں اسے قیام اللیل کہا جاتا تھا، یعنی تہجد کی نماز۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نماز تہجد کا وقت عشا کی نماز کے بعد سے لے کر رات کے آخری پہر، طلوع فجر تک ہے۔ اس وقت کے دوران میں کسی بھی وقت اسے پڑھا جاسکتا ہے۔ 4. وقت کی اسی وسعت اور گنجائش کی وجہ سے اس نماز تہجد کو رمضان المبارک میں عشا کی نماز کے فوراً بعد پڑھ لیا جاتا ہے تاکہ کم ازکم رمضان میں زیادہ سے زیادہ لوگ قیام اللیل کی فضیلت حاصل کر سکیں اور اسی وجہ سے اس کی جماعت کا بھی اہتمام ہوتا ہے کیونکہ فرداً فرداً ہر شخص کے لیے اس کا پڑھنا مشکل ہے۔ 5. بعد میں اس قیام اللیل کو تراویح کا نام دے دیا گیا اور اسے رمضان کی مخصوص نماز سمجھا جانے لگا،حالانکہ یہ رمضان کے ساتھ مخصوص ہے نہ یہ رمضان کی کوئی مخصوص نماز ہی ہے۔ یہ قیام اللیل یا نماز تہجد ہی ہے جس کا پڑھنا سارا سال ہمیشہ ہی مستحب اور اہل صلاح و تقویٰ کا معمول رہا ہے۔ اس لیے اسے اول وقت میں اور باجماعت پڑھنے یا نیا نام رکھنے کی وجہ سے، تہجد سے مختلف نماز سمجھنا بالکل بے اصل اور بلادلیل بات ہے۔ 6. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام اللیل یا نماز تہجد میں کتنی رکعت پڑھنے کا معمول تھا۔ اس کی وضاحت صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ وہ وتر کے علاوہ آٹھ رکعت اور وتر سمیت گیارہ رکعت ہے: