کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 162
تقریب اور اجتماع کے موقع پر محض برکت کے لیے اس کی تلاوت کر دی جائے۔ کیا واقعی ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ ہم ہی وہ گروہ بنیں گے جس کے خلاف قیامت کے روز خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دربار الٰہی میں دعویٰ پیش کریں گے جس کو قرآن نے ان لفظوں میں ذکر کیا ہے: ﴿ وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴾ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں گے اے میرے رب بے شک میری قوم نے اس قرآن کو مذاق بنا لیا تھا۔‘‘[1] (ترجمان الحدیث، فیصل آباد، اگست، ستمبر 2009ء) 13. تلاوت قرآن میں خوف و بکا کی مطلوبیت قرآن کریم کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ اس کو پڑھتے اور سنتے وقت انسان پر خوف اور رقت کی کیفیت بھی طاری ہونی چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب پڑھنے اور سننے والے مطالب ومعانی سے بھی واقف ہوں ۔ اسی لیے قرآن کو شعروں کی سی تیزی اور روانی سے پڑھنے کی ممانعت ہے، جس کا مطلب یہی ہے کہ قرآن کو محض تاریخ وقصص کی کتاب نہ سمجھا جائے بلکہ اسے کتاب ہدایت سمجھ کر پڑھا جائے، آیات وعد ووعید اور انذار وتبشیر پر غور کیا جائے، جہاں اللہ کی رحمت و مغفرت اور اس کی بشارتوں اور نعمتوں کا بیان ہے وہاں اللہ سے ان کا سوال کیا جائے اور جہاں اس کے انذار وتخویف اور عذاب ووعید کا تذکرہ ہو، وہاں ان سے پناہ مانگی جائے۔ ہمارے اسلاف اس طرح غور وتدبر سے قرآن پڑھتے تو ان پر بعض دفعہ ایسی کیفیت
[1] الفرقان 30:25۔