کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 161
نہیں ہے تو قرآنی علوم کی، ورنہ نیچے سے اوپر تک تعلیم کا کوئی مرحلہ اور درجہ ایسا نہ ہوتا جس میں اس کو نظرانداز کیا گیا ہوتا۔ ہم دنیا کا ہر علم و فن بڑی محنت سے سیکھتے سکھاتے ہیں مگر قرآن کے سیکھنے سکھانے اور پڑھنے پڑھانے سے بے پروا ہیں ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ یہاں ایسی تعلیم گاہیں وجود میں آسکتیں یا پہلے سے قائم شدہ قائم رہتیں جن کے احاطے میں قرآن کا داخلہ ممنوع ہے اور اگر وجود میں آتیں تو آپ اپنی موت نہ مر جاتیں ۔ لیکن اس کے برخلاف نہ صرف یہ کہ ایسی تعلیم گاہیں اغیار نے قائم کیں بلکہ یہ تعلیم گاہیں ہمارے ہی بچوں سے بھری ہوئی ہیں اور افسوسناک بلکہ شرمناک بات یہ ہے کہ ایسی تعلیم گاہوں میں تعلیم دلانا بڑے فخر کی بات سمجھی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ یہ بچے ایسے اداروں سے جب پختہ ذہن ہو کر نکلتے ہیں تو چاہے شیکسپیر اور نیوٹن بن کر نکلتے ہوں مگر قرآن سے کوسوں دور کیے جاچکے ہوتے ہیں یہاں تک کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کلمہ طیبہ نام کا بھی کوئی جملہ ہے اور ان تعلیم گاہوں سے پڑھ کر نکلنے والے چند ایسے بھی طلبہ سے خود میرا سابقہ پڑا ہے جو نہ صرف یہ کہ اسلام سے نابلد ہیں بلکہ اسلام سے متنفر کیے جاچکے ہیں ۔ پھر دنیا کی شاید ہی کوئی کتاب ہو جس نے قرآن سے زیادہ اس بات پر زور دیا ہو کہ اس کا حقیقی فائدہ صرف اس وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب اس کی تلاوت کا حق ادا کیا جائے، جب اسے سمجھا جائے، جب اس کو پورے غوروتدبر کے ساتھ پڑھا جائے۔ لیکن یہ حقیقت تلخ ہونے کے باوجود بہر حال ایک حقیقت ہے کہ یہی ایک کتاب ہے جو ہمیشہ آنکھیں بند کر کے پڑھی جاتی ہے اور زندگی کے معاملات سے اس کا تعلق صرف اس قدر رہ گیا ہے کہ نزع کے وقت کی سختیوں کو آسان کیا جائے یا کسی