کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 159
﴿ لَوْ أَنزَلْنَا هَـٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّـهِ﴾ ’’اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ اللہ کے خوف سے دبا اور پھٹا جاتا ہے۔‘‘[1] اس سلسلے میں امام غزالی رحمہ اللہ نے کیا خوب ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن عزیز کی عظمت اور جمال کو حرفوں کا لباس پہنا دیا ہے تاکہ اس لباس کے ذریعہ وہ انسانوں تک پہنچے لیکن بہت سے لوگ قرآن کو اس کی آواز اور ظاہری شکل و صورت سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے حالانکہ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ خیال کرے کہ آتش، یعنی آگ کی حقیقت محض الف ، ت اور ش ہے اور اس بات کو نہ جانے کہ اگر آتش میں کاغذ ڈالا جائے تو وہ جلادیتی ہے اور کاغذ اس کی تاب نہیں لاسکتا، لیکن یہ حروف جن سے آتش کا لفظ مرکب ہے ہمیشہ کاغذ پر لکھے رہتے ہیں لیکن کچھ اثر نہیں کرتے اسی طرح کاغذ پر لکھی ہوئی قرآنی آیتیں اپنے اندر وہ عظیم الشان حقیقتیں رکھتی ہیں کہ اگر انسان اپنے دل و دماغ کو ان کے حوالے کر دے، تو پھر وہ آگ سے کندن بن کر نکلتا ہے اور انسانیت کے بازار میں وہی ایک کھرا سونا ثابت ہوتا ہے، پھر ناممکن ہے کہ انسانیت کا اجتماعی ضمیر کھرے سونے کی قدروقیمت کو نہ پہچانے۔ پھر باطنی آداب کے سلسلے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہر اس آیت کا حق ادا کرنا چاہیے جو تلاوت کے اثناء میں سامنے آئے، مثلاً: کوئی ایسی آیت سامنے آئے جس میں عذاب الٰہی کا بیان ہے تو دل پر خوف و ہراس طاری ہو اور اللہ سے پناہ طلب کی
[1] الحشر 21:59۔