کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 158
مبتلا کرنے کی غرض سے پڑھتے ہیں ۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اپنے ذاتی رجحانات سے ذہن کو پاک رکھا جائے ورنہ قرآن کی تلاوت اور اس کے مطالعہ سے اگر یہ کام لیا جائے کہ انسانی دماغ کے تراشے ہوئے فلسفوں اور اپنے ذاتی افکار یا اعتبار سے یہاں درآمد کیے ہوئے نظریات و تصورات کی تائید میں قرآن سے کچھ الٹی سیدھی دلیلیں گڑھی جائیں ۔ تو ممکن ہے انسان کو بزعم خویش اس طرح کے قرآنی معارف کے نکالنے میں کامیابی حاصل ہو جائے لیکن یہ حرکت انسان پر قرآن کے فہم کا دروازہ بند کر دیتی ہے تیسری شرط یہ ہے کہ تلاوت کے ظاہری اور باطنی آداب کا لحاظ رکھا جائے، ظاہری آداب میں جسم و لباس کی پاکیزگی اور قرآن کی تعظیم کا اہتمام ہے، پھر اسی تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر آہستہ آہستہ تلاوت کی جائے ایسا معلوم نہ ہو کہ ایک بوجھ ہے جس کو انسان جلد سے جلد سر سے اتار پھینکنا چاہتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اگر کسی کو قرآن مجید جلدی جلدی پڑھتا ہوا دیکھتیں تو فرماتیں کہ یہ شخص نہ تو خاموش ہے اور نہ قرآن ہی پڑھ رہا ہے، اس کے علاوہ فضیلت کے اعتبار سے زبانی پڑھنے کے لحاظ سے قرآن حکیم کو دیکھ کر پڑھنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے اگرچہ انسان قرآن کا حافظ ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ اس طرح آنکھیں بھی مشغول رہتی ہیں جس طرح دل اور دماغ کا حاضر رکھنا تلاوت قرآن کے آداب و شرائط میں ہے۔ باطنی آداب کے سلسلے میں ایک تو یہ ہے کہ اللہ کے اس کلام کی عظمت کو جانا جائے اور اس حقیقت کو پہچانا جائے جس کی بنا پر یہ ارشاد ہوا ہے کہ