کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 156
﴿ وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا ﴾ ’’اور عبادالرحمن وہ ہیں جنہیں اگر ان کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں گرتے۔‘‘[1] یعنی اللہ کی آیات کو سمجھتے اور ان میں غوروفکر کرتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تلاوت کی جانے والی آیات میں جو تعلیم ہوتی ہے اس کا اپنے آپ کو مظہر بناتے ہیں اگر اللہ کی نظر میں کسی پسندیدہ کام کا تذکرہ ہوا ہے تو اسے اختیار کرتے ہیں اور اگر کسی چیز کی مذمت بیان ہوئی ہے تو اس سے رک جاتے ہیں اور اگر وہ ان کی زندگی میں پائی جاتی ہے تو اسے اپنی زندگی سے خارج کرتے ہیں ۔ اسی بنا پر ایسے لوگوں کی بابت قرآن حکیم یہ خبر دیتا ہے کہ ﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ﴾ ’’اصل میں ایمان لانے والے تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی توکل کرتے ہیں ۔‘‘[2] غرض قرآن حکیم کی تلاوت کا بجائے خود ایک عبادت ہونے کے باوجود اس تلاوت کا حق ادا کیے بغیر نہ کسی اخلاقی مرض کا علاج ہو سکتا ہے، نہ ان خصلتوں اور صفتوں کی نشوونما ہو سکتی ہے جو اسلام کو مطلوب ہیں ، نہ اس اجتماعی نظام کی تعمیر ہو سکتی
[1] الفرقان 73:25۔ [2] الأنفال 2:8۔