کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 155
﴿ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَـٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴾ ’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے وہ اس پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں اور جو اس کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کریں وہ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔‘‘[1] اس آیت کریمہ میں اگرچہ اہل کتاب کے صالح عناصر کی طرف اشارہ ہے لیکن اس کا مفاد بہر حال یہ تو نکلتا ہی ہے کہ قرآن چونکہ کتاب الٰہی ہے بلکہ واحد صحیح ترین اور مستند کتاب الٰہی ہے، اس لیے اس کی تلاوت کا حق ادا کرنے سے ایمان کی حلاوت اور برکتیں حاصل ہوتی ہیں اور اللہ کی اس کتاب کی تلاوت کا حق ادا نہ کرنا خسران و نامرادی کو دعوت دینا ہے۔ قرآن حکیم کا حق تلاوت ادا کرنا یہ نہیں ہے کہ اسے پڑھ کر یا سن کر انسان ٹس سے مس نہ ہو بلکہ یہ ہے کہ ان قرآنی آیتوں کا گہرا اثر قبول کرے، جو ہدایت پڑھی جانے والی آیتوں میں آئی ہو، اس کی پیروی کی جائے۔ جس چیز کو فرض قرار دیا گیا ہو، اس کی تعمیل کی جائے، جس چیز کی برائی بیان کی گئی ہو، اس سے انسان اپنے آپ کو بچائے، اور عذاب الٰہی سے متعلق کوئی آیت سامنے آئے تو اس عذاب کے تصور سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ اسی لیے عبادالرحمن، یعنی اللہ کے اصل بندوں کی صفات میں سے ایک اس صفت کا بھی قرآن حکیم نے تذکرہ کیا ہے کہ:
[1] البقرة :2/121