کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 144
اہل کتاب کی صفت بیان فرمائی: ﴿ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَـٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ﴾ ’’وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی، وہ اس کتاب کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے، یہی لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں ۔‘‘[1] تلاوت کا یہ حق وہ کس طرح ادا کرتے ہیں ؟ اس کے کئی مطلب بیان کیے گئے ہیں ، مثلاً: ٭ وہ کتابِ الہٰی کو خوب توجہ اور غور سے پڑھتے ہیں ، جنت کاذ کرآتا ہے توجنت کا سوال کرتے اور جہنم کاذکر آتا ہے تواس سے پناہ مانگتے ہیں ۔ ٭ اس کے حلال کو حلال، حرام کو حرام سمجھتے اور کلام الہٰی میں تحریف نہیں کرتے (جیسے اہل زیغ وضلال کا شعار ہے) ٭ اس میں جوکچھ تحریر ہے لوگوں کو بتلاتے ہیں ، اس کی کوئی بات چھپاتے نہیں ۔ ٭ اس کی محکم باتوں پر عمل کرتے، متشابہات پر ایمان رکھتے اور جوباتیں سمجھ میں نہیں آتیں ، وہ علماء سے حل کرواتے ہیں ۔ ٭ اس کی ایک ایک بات پر عمل کرتے ہیں ، اپنی طرف سے دین میں اضافہ نہیں کرتے۔ (فتح القدیر، للشوکانی) واقعہ یہ ہے کہ حق تلاوت میں یہ سارے ہی مفہوم داخل ہیں اور ہدایت ایسے ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو مذکورہ باتوں کا اہتمام کرتے ہیں ۔ گویا قرآن کا سب سے
[1] البقرۃ 121:2۔