کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 140
پیروکاروں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہی ہورہا ہے، ہمیں اس کے سد باب کے لیے ضرور کچھ کرنا چاہیے، چنانچہ انہوں نے اپنے میں سے سب سے زیادہ بلیغ وفصیح آدمی ’’عتبہ بن ربیعہ‘‘ کا انتخاب کیا، تاکہ وہ آپ سے گفتگو کرے، چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر عربوں میں انتشاروافتراق پیدا کرنے کا الزام عائد کرکے پیشکش کی کہ اس نئی دعوت سے اگر آپ کا مقصد مال ودولت کاحصول ہے تو وہ ہم جمع کیے دیتے ہیں ، قیادت وسیادت منوانا چاہتے ہیں تو آپ کو ہم اپنا لیڈر اور سردارمان لیتے ہیں ، کسی حسین عورت سے شادی کرناچاہتے ہیں تو ایک نہیں ایسی دس عورتوں کا انتظام ہم کردیتے ہیں اور اگر آپ پر آسیب کا اثر ہے جس کے تحت آپ ہمارے معبودوں کو براکہتے ہیں تو ہم اپنے خرچ پر آپ کا علاج کروادیتے ہیں ۔ آپ نے اس کی تمام باتیں سن کر اس سورت کی تلاوت اس کے سامنے فرمائی، جس سے وہ بڑا متأثر ہوا۔ اس نے واپس جاکر سردارانِ قریش کو بتلایا کہ وہ جو چیزپیش کرتا ہے وہ جادو اور کہانت ہے نہ شعروشاعری۔ مطلب اس کا آپ کی دعوت پر سرداران قریش کو غور وفکر کی دعوت دینا تھا۔ لیکن وہ غوروفکر کیا کرتے؟ الٹاعتبہ پر الزام لگا دیا کہ تو بھی اس کے سحرکا اسیر ہو گیا۔ یہ روایات مختلف انداز سے اہل سیروتفسیر نے بیان کی ہیں۔ امام ابن کثیراور امام شوکانی نے انہیں نقل کیا ہے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں ’’یہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قریش کا اجتماع ضرور ہوا، انہوں نے عتبہ کو گفتگو کے لیے بھیجا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس سورت کا ابتدائی حصہ سنایا، (جس سے وہ شدید متأثر ہوا۔) ٭ قرآن کریم کی آیت ہے: