کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 137
’’سوائے دوآدمیوں کے کسی پر رشک کرنا جائز نہیں ۔ ایک وہ آدمی جسے اللہ نے قرآن عطا کیا، (یعنی اسے حفظ کرنے کی توفیق دی)پس وہ اس کے ساتھ رات اور دن کی گھڑیوں میں قیام کرتا ہے، (یعنی اللہ کی عبادت کرتا ہے) اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے مال ودولت سے نوازا تو وہ اسے (اللہ کی راہ میں ) رات اور دن کی گھڑیوں میں خرچ کرتا ہے۔‘‘[1] 11. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَیْتٍ مِّنْ بُیُوتِ اللّٰہِ یَتْلُونَ کِتَابَ اللّٰہِ وَ یَتَدَارَسُونَہُ بَیْنَہُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِینَۃُ وَ غَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَۃُ وَ حَفَّتْہُمُ الْمَلَائِکَۃُ وَ ذَکَرَہُمُ اللّٰہُ فِیمَنْ عِنْدَہُ)) ’’جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اس کا تکرار کرتے (یادرس دیتے) ہیں تو ان پر (اللہ کی طرف سے ) سکینت (تسکین ورحمت) نازل ہوتی ہے، رحمت انہیں ڈھا نک لیتی ہے، فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان فرشتوں میں ان کاذ کرفرماتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں ۔‘‘[2] (یَتَدَا رَسُونَہُ) کا ایک مفہوم تویہ ہے کہ ایک دوسرے کو قرآن کادرس دیتے ہیں ، یعنی قرآنی علوم ومعارف پر مذا کرہ ومباحثہ کرتے ہیں ۔ دوسرا مفہوم ہے کہ قرآن مجید
[1] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ …، حدیث 815۔ [2] صحیح مسلم، الذکر، باب فضل الا جتماع علی تلاوۃ القرآن …، حدیث 2699۔