کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 135
ظاہر اور باطن دونوں ناپاک ہیں ۔ 7. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْمَاہِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الْکِرَامِ البَرَرَۃِ، وَالَّذِي یَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَ یَتَتَعْتَعُ فِیہِ وَ ہُوَ عَلَیْہِ شَاقٌّ، لَہُ أَجْرَانِ)) ’’قرآن کا ماہر (قیامت کے دن) ان فرشتوں کے ساتھ ہوگا جو (دنیامیں ) وحیٔ الٰہی والے اور بزرگ، نیکو کارہوں گے اور جوقرآن اٹک اٹک کرپڑھتا ہے اور اس کے پڑھنے میں اسے مشقت ہوتی ہے، اس کے لیے دگنا اجر ہے۔‘‘[1] ماہر سے مراد، قرآن کریم کا حافظ اور تجوید وحسن صوت سے پڑھنے والا ہے اور دوسرا وہ شخص ہے جو حافظ ہے نہ حسن صوت اور تجوید سے بہرہ ور، اس لیے قرآن فصاحت اور روانی سے نہیں پڑھ سکتا۔لیکن اس کے باوجود ذوق و شوق سے اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور پڑھنے میں اسے جو مشقت ہوتی ہے اسے برداشت کرتاہے۔ اس مشقت کی وجہ سے اسے دگنا اجر ملے گا۔ تاہم دونوں ہی قرآن کریم کی وجہ سے خصوصی شرف وفضل سے بہرہ ور ہوں گے۔ 8. اسی لیے ایک اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ((خَیْرُکُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہُ))
[1] صحیح البخاري، التفسیر سورۂ عبس، حدیث: 4937، و صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل الماھر بالقرآن والذي یتتعتع فیہ، حدیث 798۔ واللفظ لمسلم۔