کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 123
قربان کرتے ہیں ، ایک جانورکی قربانی مُتمتِّع اور قارِن حاجی کے لیے ضروری ہے۔ لیکن جو آفاقی متمتع یا قارِن حاجی جانور قربان کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، ان کواللہ تعالیٰ نے یہ رخصت عنایت فرمائی ہے کہ وہ قربانی کے بدلے دس روزے رکھ لیں ، تین روزے ایامِ حج میں اور سات روزے گھر پہنچ کر رکھ لیں ، اس کی وضاحت قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں ہے: ﴿ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ ﴾ ’’جس نے حج (کے احرام) تک عمرے کا فائدہ اٹھایا وہ (احرام کھول کر) جومیسر ہو قربانی کرے، پـھرجو شخص (قربانی) نہ پائے تو وہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات اس وقت جب تم گھر لوٹ آؤ۔‘‘[1] ایامِ حج میں تین روزے رکھنے کا جو حکم ہے، ان سے مراد ایامِ تشریق ہی ہیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں ہے: ((لَمْ یُرَخَّصْ فِي أَیَّامِ التَّشْرِیقِ أَنْ یُّصَمْنَ إِلَّا لِمَنْ لَمْ یَجِدِ الْھَدْيَ)) ’’اَیّامِ تشریق میں روزے رکھنے کی اجازت نہیں ہے سوائے اس شخص کے جس کے پاس ہَدی نہ ہو۔‘‘[2] ان مخصوص حجاجِ کرام کے علاوہ دیگر حجاج کو ایامِ تشریق میں نفلی روزے رکھنا
[1] البقرۃ 196:2۔ [2] صحیح البخاري، الصوم، باب صیام أیام التشریق، حدیث: 1998,1997۔