کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 12
پھر امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : (( و إنما رَدَّہ لأن الرؤیۃ لا یثبت حکمہا في حق البعید)) ’’حضرت ابن عباس نے حضرت کریب رحمہ اللہ کی رؤیت کو اس لیے تسلیم نہیں کیا کہ رؤیت کا حکم دوروالے لوگوں کے حق میں ثابت نہیں ہوتا۔‘‘[1] امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی یہ واقعہ اپنی سنن ترمذی کے ابوابُ الصوم میں نقل کیا ہے اور انہوں نے بھی اس پر یہ عنوان قائم کیا ہے: ((باب ماجاء لکل أہل بلد رؤیتہم)) ’’اس بات کا بیان کہ ہر علاقے کے لوگوں کے لیے ان کی اپنی رؤیت ہے۔‘‘ بہر حال اس میں واضح طور پر موجود ہے کہ صحابیٔ رسول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مدینے والوں کے لیے شام کی رؤیت کا اعتبار نہیں کیا، جس سے اسی موقف کا اثبات ہوتا ہے کہ پورے عالم اسلام کے لیے کسی ایک ہی علاقے کی رؤیت کافی نہیں ہے۔ اور احادیث سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( لَا تَصُومُوا حَتّٰی تَرَوُا الْہِلَالَ وَ لَا تُفْطِرُوا حَتَّی تَرَوْہُ فَإِنْ أُغْمِيَ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوا لَہُ)) ’’اور اس وقت تک روزہ نہ رکھو، جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اس وقت تک روزہ افطار (روزہ رکھنا ترک اور عید) نہ کرو، جب تک چاند دیکھ نہ لو، اگر بادل چھاجائیں تو پھر (تیس دن کا) اندازہ پورا کرو۔‘‘
[1] شرح صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب وجوبِ صومِ رمضان، حدیث: 1080۔