کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 119
وَاللَّیْلَۃِ قَضَتْ عَنْہُ مَا أَخَلَّ بِہٖ مِنْ صَلٰوۃِ سَنَۃٍ وَقَالَ: ہٰذَا مَوْضُوعٌ بِلَاشَکٍّ وَلَمْ أَجِدْہُ فِي شَيْئٍ مِّنَ الْکُتُبِ الَّتِي جَمَعَ مُصَنِّفُوہَا فِیہَا الأَْحَادِیثَ الْمَوْضُوعَۃَ وَلٰکِنِ اشْتَہَرَ عِنْدَ جَمَاعَۃٍ مِّنَ الْمُتَفَقِّہَۃِ بِمَدِینَۃِ صَنْعَائَ فِي عَصْرِنَا ہٰذَا وَصَارَ کَثِیرٌ مِّنْہُمْ یَفْعَلُونَ ذٰلِکَ وَلَا أَدْرِي… مَنْ وَّضَعَ لَہُمْ، فَقَبَّحَ اللّٰہُ الْکٰذِبِینَ۔ وَقَالَ الْعَلَّامَۃُ الدِّہْلَوِيُّ فِي رِسَالَتِہِ الْعُجَالَۃِ النَّافِعَۃِ عِنْدَ ذِکْرِ قَرَائِنِ الْوَضْعِ: اَلْخَامِسُ أَنْ یَّکُونَ مَُخَالِفًا لِمُقْتَضَی الْعَقْلِ وَتُکَذِّبُہُ الْقَوَاعِدُ الشَّرْعِیَّۃُ مِثْلُ الْقَضَائِ الْعُمُرِيِّ وَنَحْوِ ذٰلِکَ اِنْتَھٰی مُعَرَّبًا…)) خلاصۂ ترجمہ یہ ہے کہ ’’قضائے عمری والی روایت بالکل باطل ہے اوراجماع کے بھی مخالف ہے کیونکہ کوئی عبادت بھی کئی سالوں کی فوت شدہ نمازوں کے قائم مقام نہیں ہوسکتی۔ جن فقہاء (صاحبِ نہایہ اور دیگر شارحینِ ہدایہ) نے یہ روایت نقل کی ہے، ان کا کوئی اعتبار نہیں ، اس لیے کہ ایک تو وہ خود محدث نہیں ، دوسرا انہوں نے کسی امام و محدث کا حوالہ نہیں دیا جس نے اپنی کسی کتاب میں اس حدیث کی تخریج کی ہو۔ ملّا علی قاری حنفی، مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ نے بھی اس حدیث کو من گھڑت قرار دیا ہے۔‘‘[1] علاوہ ازیں مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ نے جمعۃ الوداع کی بدعات کے ردّ میں
[1] الآثار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ اور مجموعۃ إمام الکلام، ص: 315 طبع لکھنؤ۔