کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 115
البتہ کسی کے ذمے نذر کے روزے ہوں اور وہ زندگی میں نہ رکھ سکا ہو تو ان کی قضاء ورثا کے لیے ضروری ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مَنْ مَّاتَ وَ عَلَیْہِ صِیَامٌ، صَامَ عَنْہُ وَلِیُّہُ)) ’’جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو وارث اس کی طرف سے روزے رکھے۔‘‘[1] اس حدیث میں فوت شدہ شخص کے ذمے رہ جانے والے روزوں کی قضائی کا جو حکم ہے۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے، کہ اس کا تعلق نذر کے روزوں سے ہے نہ کہ رمضان کے روزوں سے۔ تاہم بعض علماء نے اس میں دو قسم کے افراد کو اور شامل کیا ہے۔ ایک وہ بیمار جس کو رمضان کے بعد بحالت صحت روزوں کی قضا کا موقع ملا لیکن اس نے تساہل سے کام لیا اور روزے نہ رکھے، حتی کہ فوت ہو گیا۔ دوسرا وہ شخص، جس کے روزے سفر کی وجہ سے رہ گئے، رمضان کے بعد اسے روزے رکھنے کا موقع ملا لیکن اس نے بھی تساہل کی وجہ سے روزے نہیں رکھے، حتیٰ کہ فوت ہو گیا۔ ان دونوں کے ذمے بھی فرض روزے رہ گئے جن کی ادائیگی ان کے ورثا کی ذمے داری ہے۔ (یہ ایک رائے ہے) اس کے برعکس ایک دوسری رائے یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں بھی ورثاء کی کوئی ذمے داری نہیں ہے۔ اگر اس نے واقعی تساہل سے کام لیا ہو گا تو یہ اس کا فعل ہے، اس کا ذمہ دار بھی وہی ہو گا، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ جو معاملہ فرمانا چاہے گا،
[1] صحیح البخاري، الصوم، باب من مات وعلیہ صوم،حدیث: 1952 و صحیح مسلم، الصیام، باب قضاء الصیام عن المیت،حدیث: 1147۔