کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 111
’’جس کو خود قے آ گئی (اس کا روزہ برقرار ہے ) اس پر قضا نہیں اور اگر اس نے جان بوجھ کر قے کی تو اس کو چاہیے کہ وہ قضا دے۔‘‘[1] 3. بیوی سے ہم بستری کرے گا تو نہ صرف روزہ ٹوٹ جائے گا بلکہ اس کو اس کی قضا کے ساتھ کفارہ بھی ادا کرنا پڑے گا اور وہ کفارہ ہے۔ ایک گردن آزاد کرنا یا بلاناغہ متواتر دو مہینے کے روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔[2] اس کی مزید تفصیل آگے عورتوں کے مخصوص مسائل میں ملاحظہ فرمائیں ۔ جو شخص عمداً کھا پی کر روزہ توڑ لے، اس کا کفارہ بھی ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے یا نہیں ؟ اس کی بابت اختلاف ہے۔ بعض علماء نے مذکورہ صورت پر قیاس کر کے اس کے لیے بھی مذکورہ کفاروں میں سے کوئی ایک کفارہ ضروری قرار دیا ہے۔ لیکن دوسرے علماء کے نزدیک اس کی جگہ ایک روزہ رکھ لینا اور توبہ و استغفار کر لینا کافی ہے۔ دوسری رائے ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے، واللہ اعلم۔ 4. گلوکوز یا خون یا کوئی اور غذائی مواد کسی ذریعے سے اندر داخل کرنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا کیونکہ اس کا مقصد پیٹ کے اندر چیز کا پہنچانا ہے، جو مُفْطِر ’’روزہ ختم کرنے والا ‘‘ ہے۔ علاوہ ازیں مذکورہ چیزوں سے توانائی بھی حاصل ہوتی ہے جو روزے میں ممنوع ہے۔ تاہم حُقنہ (مقعد کے ذریعے سے دوائی اندر داخل کرنے) سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ اسی طرح جائفہ اور مأمومہ کے علاج سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، جائفہ پیٹ کا زخم اور مأمومہ سے دماغ کی چوٹ یا زخم مراد ہے۔ اس کا مقصد بھی
[1] سنن أبي داود، الصیام، باب الصائم یستقیء عامدًا،حدیث: 2380۔ [2] صحیح البخاري، الصوم، باب إذا جامع في رمضان ولم یکن…، حدیث : 1936۔