کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 11
معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا۔ میں وہاں گیا اور اپنا کام پورا کیا اور ملک شام ہی میں میری موجودگی میں وہاں رمضان کا چاند ہوگیا اور یہ جمعہ کی رات تھی۔ پھر جب میں مہینے کے آخر میں مدینہ واپس آیا، تو مجھ سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا کہ تم نے وہاں چاند کب دیکھا تھا، میں نے بتلایا کہ جمعے کی رات کو، انہوں نے پوچھا: تم نے خود دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہاں میں نے بھی اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا اور اس کے مطابق ہی لوگوں نے ا ور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے روزے رکھے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: لیکن ہم نے تو یہاں (مدینے میں ) ہفتے کی رات کو چاند دیکھا تھا، چنانچہ ہم تو پورے تیس روزے رکھیں گے یا پھر (29 رمضان کو) ہم چاند دیکھ لیں ۔ تو میں نے کہا: کیا آپ کے لیے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی رؤیت اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں ، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ہی حکم دیا ہے۔‘‘[1] …صحیح مسلم کی احادیث کی تبویب کرتے ہوئے امام نووی رحمہ اللہ نے اس واقعے پر باب کا جو عنوان دیا ہے، اس کا ترجمہ ہی یہ ہے: ’’اس بات کا بیان کہ ہر علاقے کے لیے ان کی اپنی رؤیت ہے، نیز یہ کہ جب کسی علاقے کے لوگ چاند دیکھ لیں تو رؤیت ان لوگوں کے حق میں ثابت نہیں ہوگی جو اُن سے دور ہوں گے۔‘‘
[1] صحیح مسلم، الصیام، باب بیان أن لکل بلد رؤیتہم و أنہم اذا رأوا الہلال ببلد لا یثبت حکمہ لما بعد عنہم۔