کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 107
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اپنے جذبات اور خواہشات پر بڑا کنٹرول تھا۔ اس لیے بیوی سے بوس و کنار کرتے وقت آپ سے یہ اندیشہ نہیں تھا کہ آپ جذبات محبت میں بے قابو ہو کر اس سے تجاوز کر جائیں گے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ روزے کی حالت میں بیوی سے بوس و کنار اگرچہ جائز ہے۔ لیکن یہ جائز کام صرف وہی شخص کرے جس کو اپنے جذبات پر کنٹرول ہو، بصورت دیگر اس سے باز رہے۔ اس بات کو بعض علماء نے اس طرح بیان کیا ہے کہ نوجوان آدمی کے لیے بیوی سے بوس و کنار کرنا مکروہ ہے اور عمر رسیدہ شخص کے لیے غیر مکروہ۔ کیونکہ نوجوان سے تجاوز کا خطرہ ہے، بوڑھے آدمی سے تجاوز کا خطرہ نہیں ۔ لیکن اصل مسئلہ عمر (جوانی یا بڑھاپے) کا نہیں بلکہ جذبات پر کنٹرول کرنے کا ہے، جو کر سکتا ہے اس کے لیے جواز ہے ورنہ ناپسندیدہ اور خطرات کاباعث ہے۔ بوس و کنار کی وجہ سے مذی نکل جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔[1] 8. روزے کی حالت میں ایسا ٹیکہ لگوانا جائز ہے، جس کا مقصد خوراک یا قوت کی فراہمی نہ ہو۔ بلکہ صرف بیماری کا علاج ہو۔ علاج کے لیے ٹیکہ بیرونی دوائی کی حیثیت رکھتا ہے، وہ معدے میں جاتا ہے نہ اس سے کوئی خوراک ہی حاصل ہوتی ہے۔ 9. اسی طرح روزے کی حالت میں سینگی لگوائی جاسکتی ہے، یعنی فصد کے ذریعے سے گندا خون نکلوایا جاسکتا ہے۔ دانت نکلوایا جاسکتا ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کی
[1] فقہ السنۃ، سید سابق مصری مرحوم۔