کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 10
(پورے) روزے رکھے۔‘‘[1]
اور اس مہینے کے روزے اسی پر فرض ہوں گے جو رمضان المبارک کا چاند دیکھے گا، رؤیت ہلال کے بغیر رمضان کا اس کی موجودگی میں تحقُّق ہی نہیں ہوگا، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی ہے:
((صُومُوا لِرُؤْیَتِہِ وأَفْطِرُوا لِرُؤْیَتِہِ فَإِنْ غُمِّيَ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوا عِدَّۃَ شَعْبَانَ ثَلَاثِینَ))
’’تم چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھو (رمضان کا آغاز کرو) اور چاند دیکھ کر ہی روزہ افطار (روزہ رکھنا ترک اور عید) کرو، اگر تم پر بادل چھا جائیں (اور اس کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو) تو شعبان کے 30 دنوں کی گنتی پوری کرو۔‘‘[2]
اگر مثلاً: اہل مکہ یا اہل مصر چاند دیکھ لیں لیکن دوسرے علاقے کے لوگ اسے نہ دیکھ سکیں تو اہلِ مکہ یا اہلِ مصر کے لیے تو رؤیت ثابت ہوگئی اور وہ اس کی بنیاد پر رمضان کے آغاز یا اختتام کا فیصلہ کریں گے لیکن دوسرے علاقے کے لوگ کس طرح یہ فیصلہ کرسکتے ہیں جبکہ انہوں نے چاند دیکھا ہی نہ ہو۔
عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک نظیر
علاوہ ازیں اس کی ایک دوسری وجہ عہد صحابہ کی ایک نظیرہے جس سے اسی موقف کی تائید ہوتی ہے جو مذکورہ سطور میں پیش کیا گیا ہے… وہ واقعہ حسب ذیل ہے:
’’حضرت کریب رحمہ اللہ (تابعی) بیان کرتے ہیں کہ مجھے ام الفضل نے حضرت
[1] البقرۃ 185:2۔
[2] صحیح البخاري، الصوم، باب قول النبي صلي اللّٰهُ عليه وسلم اذا رَأَیْتُمُ الہلال فصوموا… ، حدیث: 1909۔