کتاب: رمضان المبارک احکام و مسائل - صفحہ 62
خود احتسابی رمضان المبارک میں آپ نے روزے رکھے۔ رات کو قیام اللیل بھی کیا۔ لیلۃ القدر کی تلاش کی کوشش بھی ضرور کی ہو گی۔ عید الفطر بھی آپ نے سنت طریقے سے منائی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ روزے کا جو اصل مقصد، وہ بھی کہیں حاصل ہوا یا نہیں۔ روزے کا مقصد تو تقویٰ کا حصول ہے۔ تقویٰ سے مراد اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، گناہوں سے بچنا اور اپنے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تابع بنا لینا ہے۔ کیا واقعی ہم نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا، کسی کی غیبت اور بہتان تراشی سے ہم بچتے ہیں۔ پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ با جماعت مسجد میں ادا کرتے ہیں۔ قرآن مجید کی تفہیم کے لیے ہم نے کوشش شروع کر دی ہے۔ گانے اور موسیقی سننا، ٹی وی اور وی۔ سی۔ آر پر فحش پروگرام دیکھنا ہم نے ترک کر دیا ہے۔ جس میں یہ اعلیٰ خصائل پیدا ہو گئے تو وہ مبارک باد کا مستحق ہے۔ بصورت دیگر جس نے روزے بھی رکھے، اپنے جسم کو بھی تکلیف میں ڈالا اس کے باوجود وہ رمضان کے بعد پھر انھی عادات کو اپنائے ہوئے ہے تو ایسے آدمی کو غوروفکر کرنا چاہیے کہ اس نے ماہ رمضان میں یہ ساری مشقت کیوں برداشت کی ہے؟ جو انسان صحیح معنوں میں روزہ رکھے اور روزے کی پابندیوں کو بھی ملحوظ رکھے۔ رمضان کے بعد بھی ان باتوں پر عمل کرے تو اصل میں وہ متقی انسان ہے اور یہی روزے کا ارفع و اعلیٰ مقصد ہے۔ یہی روزے کی فرضیت کا فلسفہ ہے۔یہ مختصر سا محاسبہ چارٹ ہے کیونکہ جو لوگ اپنا تزکیہ و محاسبہ کرتے رہتے ہیں وہ دنیا و آخرت میں سرخرو رہتے ہیں۔