کتاب: رمضان المبارک احکام و مسائل - صفحہ 60
دی۔ ابو سفیان نا اُمید ہو کر مکہ واپس چلے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جہاد کی تیاری کا حکم دے دیا۔ اردگرد کے قبائل بھی ساتھ چل پڑے۔ تقریباً دس ہزار کا لشکر تھا۔ مکہ کے قریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس، ابوا میں چچا ابو سفیان بن حارث اور پھوپھی زاد عبد اللہ بن ابی امیہ سے ملاقات ہوئی۔ یہ سب اسلام لے آئے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کسی آدمی کی تلاش میں تھے جو مکہ جا کر قریش کو کہے کہ وہ آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے امان لے لیں اور مکہ میں جنگ نہ ہونے دیں۔ کچھ حیل و حجت کے بعد ابو سفیان بھی اسلام لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی تواضع کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ﴿اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا Ǻ۝ۙ﴾ (الفتح:۱) کی تلاوت کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کر دیا کہ جو بیت الحرام میں داخل ہو جائے۔ وہ مامون ہے۔ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے۔ پناہ میں ہے جو ہتھیار ڈال دے، اُسے قتل نہ کیا جائے۔ جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا وہ بھی مامون ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ خانہ کعبہ کے اندر۳۶۰ بت تھے۔ بتوں کو گراتے جاتے اور ﴿ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا 81؀﴾ کی تلاوت کرتے جاتے۔ خانہ کعبہ میں نماز ادا کی اور خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلی نخوت اور آبائی عظمت و برتری کو ختم کر دیا ہے۔ سبھی لوگ آدم سے پیدا ہوئے اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔ آج کے دن تم پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً ۱۹ دن مکہ میں ٹھہرے رہے تاکہ لوگوں میں توحید اور دین اسلام کی تعلیم اور مسائل راسخ کر سکیں۔ اس واضح فتح و کامرانی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مدد کی۔ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔ شرک و ظلمت کے بادل چھٹ گئے اور شہر مکہ اسلام اور توحید کا مرکز قرار پایا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اور عیدالاضحی کے دن نماز اور خطبہ کے بعد جہادی لشکر روانہ فرماتے۔ ماہ رمضان کی خصوصی مصروفیات کے ساتھ ساتھ دشمن کی کارروائیوں پر بھی کڑی نگاہ رکھتے۔ جہاں ضرورت ہوتی جہاد کے لیے خود بھی نکلتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی روانہ فرماتے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم