کتاب: رمضان المبارک احکام و مسائل - صفحہ 59
گھوڑے، ۱۰۰۰ اونٹ اور ۶۰۰زرہیں ہیں۔ مسلمان بہادری اور جوش ایمانی سے لڑے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتے نازل کر دیے۔ اس مٹھی بھر جماعت نے کافروں کے چھکے چھڑا دیے حتیٰ کہ اللہ نے اس دن کو یو م الفرقان قرار دیا۔ یہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جوروزے کی حالت میں بھی اپنی زندگیوں سے کہیں زیادہ موت سے محبت کرنے والے تھے۔ جہاد پرنکلنے کے بعد وہ بخریت اپنے بال بچوں میں واپس آنے کی بجائے اللہ کے پاس پہنچنا زیادہ محبوب رکھتے تھے۔ جنگ بدر میں ایک صحابی سیدنا عوف رضی اللہ عنہ بن حارث نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالی بندے کی کسی بات سے (خوش ہو کر) مسکراتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بات سے کہ بندہ خالی جسم (یعنی حفاظتی ہتھیاروں کے بغیر) اپنا ہاتھ دشمن کے اندر ڈبو دے۔ یہ سن کر سیدنا عوف رضی اللہ عنہ نے اپنے بدن سے زرہ اتار پھینکی اور تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے حتیٰ کہ شہادت سے سرفراز ہوئے۔ اسی طرح ۸ ہجری کے ماہ رمضان میں مکہ شہر کو کفرو شرک سے پاک فرما کر توحید کا جھنڈا بلند کیا۔ ۶ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں اور اہل مکہ کے مابین یہ بات طے پائی تھی کہ جو قبیلہ اہل مکہ کا حلیف بننا چاہے بن سکتا ہے اور جو مسلمانوں کا حلیف بننا چاہے بن سکتا ہے اس وقت بنو خزاعہ مسلمانوں کے حلیف اور بنو بکر قریش مکہ کے حلیف بن گئے۔ چونکہ ان دونوں قبیلوں میں زمانہ جاہلیت سے قتل و خون ریزی چلی آ رہی تھی۔ بنو بکر نے موقع غنیمت جان کر بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا۔ قریش نے اس جنگ میں خفیہ طریقے سے بنو بکر کی بھر پور مدد کی۔ بنو خزاعہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو بکر اور قریش کے مؤقف کی اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مدد کا وعدہ فرمایا۔ اُدھر قریش کو اپنی عہد شکنی کا احساس ہوا تو ابو سفیان کو مدینہ بھیجا کہ وہ عہد وپیمان میں پختگی اور صلح کی مدت میں اضافہ کی درخواست کرے۔ ابو سفیان آئے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کوئی جواب نہ دیا۔ وہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ ، اور علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھی گئے مگر کسی نے بھی کوئی توجہ نہ