کتاب: رمضان المبارک احکام و مسائل - صفحہ 58
رمضان اور جہاد رمضان المبارک اور روزے کا اجر و ثواب تو پچھلے صفحات میں بیان ہو چکا۔ مگر اس کے باوجود اکثر لوگ ایسے ہوتے ہیں جو رمضان کی آمد سے تنگ دل ہوتے ہیں۔ لوگوں کے سامنے تو کھانے پینے سے رکے رہتے ہیں جبکہ چھپ کر وہ اپنی خوب کسر نکالتے ہیں۔ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیماری کا بہانہ کر لیتے ہیں۔ جیب میں لوگوں کو دکھانے کے لیے دوائی رکھ لی۔ اپنی خور دو نوش کی عادت کو خراب نہیں ہونے دیتے۔ کچھ لوگ یہ بہانہ کرتے ہیں کہ جی سارا دن مزدوری کرنا ہوتی ہے۔ اس لیے روزہ رکھنا مشکل ہے۔ مجبوراً روزہ چھوڑتے ہیں۔ اگر کام پر نہ جائیں تو پھر بچوں کو کہاں سے کھلائیں۔ اصل میں یہ توفیق صرف انہی لوگوں کو ملتی ہے جن کا ایمان پختہ اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔ گرمیوں کی ایک دوپہر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور ان کے اصحاب سفر میں تھے۔ بھوک محسوس ہوئی۔ دسترخوان بچھایا۔ اسی دوران وہاں سے ایک چرواہے کا گزر ہوا۔ سیدنا عبداللہ نے کہا۔ آؤ اور تم بھی ہمارے ساتھ کھانے میں شامل ہو جاؤ۔ وہ کہنے لگا۔ کہ میرا روزہ ہے۔ اس لیے میری طرف سے معذرت قبول فرمائیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا۔ اس طرح کے گرم دن میں تم روزے کی مشقت برداشت کر رہے ہو جبکہ لو بہت تیز ہے اور تم بکریاں بھی چرا رہے ہو۔ چرواہے نے جواب دیا۔ میں ان خالی ایام کی تیاری کر رہا ہوں۔ جن میں عمل کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ اس لیے دنیوی زندگی میں عمل بجا لا رہا ہوں۔ یہ تو ایک عام سچے مسلمان کی بات ہے۔ جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی زندگیوں پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس درجہ تک باری تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے والے تھے۔ شعبان ۲ہجری میں روزے کی فرضیت کی آیات نازل ہو گئیں۔ رمضان کا مہینہ آتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روزے رکھ رہے ہیں۔ اس حالت میں مشیت ایزدی نے مشرکین مکہ سے ٹکرا دیا۔ مسلمان صرف 313 ہیں۔ اور ان کے پاس صرف ۲ گھوڑے، ۷۰ اونٹ اور ۶۰ زرہیں ہیں جبکہ دشمن ۱۰۰۰ کی تعداد میں ہے۔ اس کے پاس سامان حرب بھی زیادہ ہے۔ ۱۰۰