کتاب: رمضان المبارک احکام و مسائل - صفحہ 51
ماہ رمضان اور توبہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۭ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْابِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ ١٨٦﴾ (البقرة:۱۸۶)
’’اور جب میرے بندے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں کہہ دیجیے کہ میں ان کے قریب ہی ہوں۔ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دُعا قبول کرتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میرے احکام بجا لائیں اور مجھ پر یقین رکھیں۔ اس طرح توقع ہے کہ وہ ہدایت پا جائیں گے‘‘۔
یہ آیت اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان کے مسائل و احکام کے درمیان میں رکھی۔ اس بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ توبہ کا بھی رمضان سے خصوصی تعلق ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے پوچھا کہ ہمارا رب دور ہے تو ہم اسے اونچی آواز سے پکاریں۔ نزدیک ہے تو آہستہ پکاریں۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ میں تمھارے بالکل قریب ہوں۔ حتیٰ کہ تمھاری رگ جان سے بھی زیادہ قریب۔ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ جو مجھے پکارتا ہے۔ میں اس کی پکار کو سنتا ہی نہیں بلکہ شرف قبولیت بھی بخشتا ہوں۔ دوسری وضاحت یہ کر دی کہ بندے میرا حکم بجا لائیں۔ مجھی سے مانگیں، دوسروں سے نہ مانگیں۔ کیونکہ پکار یا دُعا ہی اصل عبادت ہے۔
واضح رہے کہ دعا کی قبولیت کے کچھ آداب ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ حرام خور کی دُعا قبول نہیں ہوتی۔ صرف دُعا ہی نہیں اس کی نماز، روزہ، عمرہ، حج، صدقہ خیرات کوئی بھی عبادت قبول نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو ہر رات کے پچھلے حصہ میں منادی کی جاتی ہے کہ کوئی رزق مانگنے والا، بخشش مانگنے والا، صحت و تندرستی مانگنے والا ہے تو آئے اور مجھ سے طلب کرے ۔ اللہ تعالیٰ عطا کرنے کے لیے ندا کرتے ہیں۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کی کچھ قدر و قیمت نہیں جانتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّـوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ ٢٢٢﴾ (البقرة : ۲۲۲)