کتاب: رمضان المبارک احکام و مسائل - صفحہ 50
عید کی نماز کا طریقہ:
نماز عید کے لیے نہ اذان ہوتی ہے نہ اقامت۔ دو رکعت نماز ہے۔ اس میں بارہ تکبیریں مسنون ہیں۔ پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں بھی قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں ہوتی ہیں۔ تمام تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین کریں۔ پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ الاعلیٰ اور دوسری رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ الغاشیہ پڑھنا مسنون ہے۔ نماز سے فارغ ہو کر امام خطبہ دے گا۔ مقتدی حضرات خاموشی سے بیٹھ کر سنیں۔ نماز عید کا صرف ایک خطبہ مسنون ہے۔ جمعہ کی طرح دو خطبے کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔ عیدہ گاہ میں منبر لے جانا بھی سنت سے ثابت نہیں ہے۔ عید گاہ میں عید کی نماز سے پہلے یا بعد کوئی بھی سنت یا نفل نماز نہیں ہے۔
عید کی ایک دوسرے کو مبارک باد دینی چاہیے۔ وہ اس طرح کہ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو کہے:
تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّاوَمِنْكَ (مسند احمد)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ سے سوال کیا گیا کہ عید کی مبارک باد دینا یعنی عید مبارک یا اس قسم کے الفاظ کہنا شرعاً کیسا ہے ۔ انھوں نے جواب دیا:
عید کے دن مبارک باد دینا اور نماز عید کے بعد تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّاوَمِنْکُمْ وَاَحَالَهُ اللّٰهُ عَلَیْكَ (اللہ ہماری اور تمھاری عید قبول فرمائے اور اسے دوبارہ لائے) اس طرح کے کلمات کہنا صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے مروی ہیں۔
امام احمد بن حنبل اور ان کی طرح دوسرے ائمہ نے اس کی رخصت دی ہے۔ لیکن امام احمدکہتے ہیں کہ میں خود یہ کہنا شروع نہیں کرتا لیکن اگر کوئی مجھ سے کہے تو میں اس کا جواب دے دیتا ہوں۔ کیونکہ تحیہ کا جواب دینا واجب ہے۔ تاہم مبارک باد دینے کی شروعات کرنا کوئی سنت نہیں ہے جس کا حکم دیا گیا ہو اور نہ یہ ان چیزوں سے ہے جن سے منع کیا گیا ہو۔ چنانچہ جس نے ایسا کیا اس کے لیے بھی نمونہ موجود ہے اور جس نے ایسا نہ کیا اس کے لیے بھی نمونہ موجود ہے۔ واللہ اعلم۔ (فتاوٰی ابن تیمیہ) بشکریہ الاعتصام