کتاب: رمضان المبارک احکام و مسائل - صفحہ 48
عید کے مسائل شوال کا چاند دیکھنے سے ہی بعض لوگ سارے مہینے کی عبادت و ریاضت کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ چاند رات کولڑکیاں چوڑیاں چڑھوانے کے لیے بازاروں میں چلی جاتی ہیں، کسی نے جوتا یا کوئی دوسری ضرورت کی چیز خریدنی ہے۔ بازاروں میں بے انتہا رش ہو جاتا ہے بازاروں میں تیز آواز کے ساتھ ڈیک چلائے جاتے ہیں۔ روزہ تو انسان کو تقویٰ کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ تو نہیں کہ رمضان ختم ہوا تو ہر چیز سے بے نیاز ہو گئے۔ چاند رات کی بھی بہت فضیلت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منْ قام لَیلَتَی العید محتسبًا لَم یَمتْ قَلْبَه یَوْمَ تَموتُ القُلُوب (ابن ماجة) ’’جو شخص دونوں عید کی رات نیک نیتی اور خلوص سے قیام کرے گا تو اس کا دل نہیں مرے گا جس دن اوروں کے دل مردہ ہو جائیں گے‘‘۔ ہر قوم میں خوشی و مسرت کے ایام ہوتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں نو روز اور مہر جان دو خوشی کے دن تھے۔ یہ دونوں دن اہلِ فارس کے ہاں خوشی اور عید کے لیے مشہور تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان کے بدلہ میں ان سے بہتر دو دن عطا کیے ہیں یعنی فطر اور اضحی کا دن۔ (بخاری) دوسری اقوام میں عید صرف کھانے پینے اور لہو و لہب کے لیے ہوتی ہے۔ لیکن اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمارا کوئی بھی دن اللہ کے ذکر سے خالی نہ ہو۔ اس لیے عید کے دن خاص طور پر دو رکعت نماز ادا کرنا مسنون ہے۔ جمعہ کے دن اور دونوں عیدوں کے دن غسل کرنا سنت موکدہ ہے۔ عید الفطر کی نماز سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ کھا کر نکلتے۔ عموماً آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ یا سات کھجوریں کھاتے: کان رسولُ اللّٰه لا یَغْدُوا یَومَ الفِطْرِ حَتّٰی یَاْکُلُ تَمَراتٍ ویأ کُلُهُنَّ وِتْراً (بخاری) جبکہ عید الاضحی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ کھائے بغیر نماز کے لیے چلے جاتے۔ نماز عید کے لیے پیدل جانا سنت ہے اور واپسی میں راستہ تبدیل کر کے آنا بھی سنت ہے۔ نماز عید کا وہی وقت ہے جو اشراق کی نماز کا وقت ہے۔ عید کی نماز کا وقت زوال تک رہتا ہے۔ بہتر ہے کہ عید الاضحی کی نماز طلوع آفتاب کے بعد فوراً پڑھی جائے۔ تاکہ لوگ قربانی جلد کر سکیں۔ عید الفطر کی نماز ذرا