کتاب: رمضان المبارک احکام و مسائل - صفحہ 43
ایک حدیث میں شعبان میں زیادہ روزے رکھنے کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو پسند فرمایا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال بار گاہ ایزدی میں پیش ہوں تو آپ روزے سے ہوں۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے یہ مستحب ہے نصف اوّل میں تو وہ نفلی روزے رکھ سکتے ہیں لیکن شعبان کے نصف ثانی میں انھیں روزہ رکھنے سے منع فرما دیا تاکہ رمضان کے روزوں کے لیے طاقت بحال رہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ روحانی قوت حاصل تھی اس لیے انھیں زیادہ روزے رکھنے سے کمزوری کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ شوال کے روزے: عن ابی ایّوب رضی الله عنه اَنَّ رسول اللّٰه قال: من صام رمضانَ ثم اَتْبعَه ستًّا مِن شوال، کان کصیام الدَّهرِ (مسلم) ’’سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے۔ اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کے مانند ہے‘‘۔ ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے ( اَلْحَسَنَةُ بِعَشْرِ اَمْثَالِهَا) اس کے مطابق ایک مہینے (رمضان) کے روزے دس مہینوں کے برابر اور شوال کے چھ روزے ساٹھ روزوں یعنی دو ماہ کے برابر بنتے ہیں۔ اسی طرح گویا پورے سال کے روزوں کے برابر اجر کا مستحق ہو گیا۔ یہ چھ روزے چاہے مسلسل رکھے جائیں یا وقفے وقفے سے دونوں طرح جائز ہیں۔ پورے ماہ میں چھ روزے رکھنے ہیں۔ ذوالحجہ کے دس دن: عن ابن عباس رضی الله عنه قال قال رسول اللّٰه مَا مِنْ اَیّامٍ الْعَمَلَ الصَّالِحُ فیها احبُّ اِلٰی اللّٰهِ من هذه الایّام یعنی اَیام العشر قالوا یا رسول اللّٰه ولا الجهادَ فی سبیلِ الله؟ قال ولا الجهاد فی سبیل اللّٰه اِلاَّ رَجُلٌ خرج بِنَفْسِه ومَالِه فَلَم یَرْجِعْ مِنْ ذٰلك بِشَیْئٍ (بخاری)