کتاب: رمضان المبارک احکام و مسائل - صفحہ 32
قارئین کو چاہیے کہ رمضان المبارک کی ساعات کو غنیمت جانتے ہوئے اس کے لمحے لمحے کو فائدہ مند بنائیں۔ تلاوت اور قیام اللیل کا اہتمام کریں۔ نماز تراویح اطمینان اور سکون سے ادا کریں۔ اطمینان نماز کی ادائیگی کے لیے اہم شرط ہے۔ رمضان المبارک کے تقاضوں میں سے تراویح ایک اہم تقاضا ہے۔ کسے معلوم کہ آئندہ برس رمضان نصیب ہو یا نہیں۔
مسجد میں لیٹ آنے والا تراویح کی جماعت کے ساتھ عشاء کے فرضوں کی نیت سے شامل ہو سکتا ہے۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی بقیہ نماز پوری کر سکتا ہے۔ لیکن مسجد میں تاخیر سے آنا اور اصل جماعت کو ترک کرنا نہایت غیر پسندیدہ فعل اور سعادت سے محرومی کا باعث ہے۔ نفل پڑھنے والے امام کے پیچھے متقدی کے فرض پڑھنے کی دلیل سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا عمل ہے۔ وہ نماز عشاء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں پڑھ کر اپنے علاقے میں جاکر لوگوں کو نفل کی نیت سے جماعت کروایا کرتے تھے۔ اور لوگ ان کے پیچھے فرض پڑھتے تھے۔ (مشکوۃ شریف)
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں چونکہ روزہ رکھا ہے اس لیے نماز تراویح بھی ضروری پڑھنی ہے۔ یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں۔ روزہ الگ عبادت ہے اور تراویح الگ عبادت ہے۔ روزہ فرض ہے اور تراویح نفل ہے اور چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تین دن پڑھائی اور اس کی تاکید کی۔ اس لیے یہ سنت بھی ہے۔ خواتین بھی اگر مسجد میں تراویح کے لیے جانا چاہیں تو پردے کے مناسب انتظام کے ساتھ جا سکتی ہیں۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:[ لا تمنعوا إماء اللّٰہ مساجد اللّٰہ ] اللہ تعالیٰ کی بندیوں کو مسجد سے مت روکو۔ راستہ پر امن ہونے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ عورت خوشبو، بجنے والے زیورات اور بلند آواز سے گفتگو وغیرہ سے پوری طرح اجتناب کرے۔
رمضان کی آخری راتوں میں بعض مساجد میں شبینہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ایک رات ہی قرآن ختم کیا جاتا ہے۔ یہ کام سنت سے ثابت نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین رات سے قبل قرآن مجید ختم کرنے کے عمل کو پسند نہیں فرمایا۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص تین رات سے کم وقت میں قرآن کریم ختم کرتا ہے وہ قرآن کو نہیں سمجھتا۔ تراویح کی نماز اور دوسری نفل نماز میں قرآن مجید سے دیکھ کر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ البتہ فرضوں میں دیکھ کر پڑھنے کی اجازت نہیں ہے‘‘۔(ابوداؤد)