کتاب: رمضان المبارک احکام و مسائل - صفحہ 31
عَنْ عائشة رضی الله عنها قالت: کان النبیُّ یُصَلّی فیما بین اَنْ یَّفْرغ مِن صلاة العشآءِ الی الفَجْرِ اِحدٰی عشرة رکعة یُسَلِّمُ بین کُلِّ رکعتینِ وَ یُوْتِرُ بِوَاحِدَةٍ (متفق علیه) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان گیارہ رکعتیں نماز ادا فرماتے۔ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور پھر ساری نماز کو ایک رکعت سے وتر بناتے۔ سیدنا ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے رمضان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ آج ایک نئی بات ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابی! کون سی بات؟ عرض کیا: میرے گھر کی عورتیں اکٹھی ہو کر کہنے لگیں۔ چونکہ ہم قرآن نہیں پڑھتیں اس لیے تمھاری اقتداء میں نماز پڑھنا چاہتی ہیں۔ میں نے ان کو آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھا دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش ہو گئے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو پسند کیا۔ (مسند ابی یعلٰی) سائب بن یزید کہتے ہیں کہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ اور تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں۔ (مؤطا امام مالک) اس میں آٹھ تراویح اور تین وتر ہیں۔ تینوں وتر ایک سلام کے ساتھ بھی جائز ہیں۔ دو رکعت الگ اور ایک رکعت الگ اس طرح بھی تین وتر مسنون ہیں۔ اکٹھے تین وتر میں التحیات آخری رکعت میں ہی ہو گا۔ اس طرح دعائے قنوت رکوع سے قبل اور بعد دونوں طرح پڑھی جاسکتی ہے۔ وتر کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلی دوسری میں سورۃ الکافرون اور تیسری رکعت میں سورۃ اخلاص پڑھنا مسنون ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز تراویح با جماعت آٹھ رکعت ہی ادا کرنا ثابت ہے۔ اس سے زائد کا ثبوت نہیں ملتا۔ خلفائے راشدین سے بھی آٹھ سے زائد ثابت نہیں ہیں۔ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی بیس رکعات باجماعت صحیح سند سے ثابت نہیں ہیں۔ اکابر حنفی علماء نے بھی اس کا اقرار کیا ہے کہ بیس رکعت تراویح صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں اس بارے میں جو احادیث پیش کی جاتی ہیں وہ سب ضعیف ہیں۔