کتاب: رمضان المبارک احکام و مسائل - صفحہ 29
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ اور بعض دوسرے علماء نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے اور حائضہ عورت کو اجازت دی ہے کہ وہ قرآن پڑھ لے مگر قرآن کو چھوئے نہیں۔
۴۔تلاوت شروع کرتے وقت اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ پڑھنا چاہیے۔ اگر سورت کی ابتدا سے پڑھ رہا ہے تو سورہ توبہ کے علاوہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ بھی پڑھے اور اگر درمیان سے پڑھ رہا ہے تو بے شک بسم اللہ نہ پڑھے۔
۵۔ قرآن کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کرنی چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کے متعلق سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت الگ الگ کر پڑھتے تھے۔
۶۔ دوران تلاوت آیت سجدہ پر پہنچ کر قبلہ رخ با وضو حالت میں سجدہ کرنا چاہیے۔ (اگر وضو نہ بھی ہو تو جائز ہے) سجدہ میں جاتے اور اٹھتے وقت اللہ اکبر اور سجدہ میں یہ دُعا پڑھے:
سَجَدَ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَه وَشَقَّ سَمْعَه وَبَصَرَه بِحَوْلِه وَقُوَّتِه فَتَبَارَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ۔
۷۔ قرآن مجید کی تلاوت زیادہ سے زیادہ کرنا مستحب ہے۔ اگر کوئی روزانہ ایک سیپارہ پڑھے تو ایک ماہ میں ختم ہو گا۔ اگر روزانہ ایک منزل پڑھے تو سات دنوں میں ختم ہو گا۔ مگر تین دنوں سے کم وقت میں قرآن ختم کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناعبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو کم ازکم تین دن میں قرآن ختم کرنے کی اجازت دی تھی۔ حالانکہ وہ زیادہ پڑھنا چاہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے تین دن سے قبل قرآن مجید ختم کیا تو اس نے قرآن مجید کو سمجھ کر نہیں پڑھا۔ تلاوت اس طرح ہونی چاہیے کہ ذہن پوری طرح کلام الٰہی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت و ہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذبات تشکر سے لبریز نہ ہو۔ کہیں اس کے غضب اور عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ غرض یہ تلاوت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کر دینے کے لیے نہیں بلکہ غور و فکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کرنے اور قرآن مجید کو خود سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین۔