کتاب: رمضان المبارک احکام و مسائل - صفحہ 22
مسافر کا روزہ: وہ آدمی جسے سفر درپیش ہوا اور اس پر قصر نماز کے احکام لاگو ہوتے ہوں۔ وہ روزہ چھوڑ سکتاہے۔ جتنے دن وہ سفر پر رہا۔ بعد میں اتنے دن روزہ رکھ لے۔ اگر کوئی سفر کے دوران بھی روزہ رکھ سکتا ہو اور اسے کوئی مشکل محسوس نہ ہوتی ہو تو روزہ رکھ سکتا ہے۔ بہرحال نہ رکھنا زیادہ بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی رخصت سے فائدہ اٹھانا ہی اس رخصت کا شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں جاتے تھے۔ رمضان المبارک میں کوئی روزہ رکھتا اور کوئی نہ رکھتا۔ کوئی بھی کسی پر اعتراض نہ کرتا تھا۔ یہ بات پیش نظر رہتی تھی کہ جو روزہ آسانی سے رکھ سکتا ہے وہ رکھے اور جو نہیں رکھ سکتا وہ نہ رکھے۔ یہ بہتر ہے۔ (مسلم) ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اَصُوْمُ فی السفر و کان کثیر الصیام فقال ان شِئْتَ فصُمْ وَاِنْ شِئْتَ فَافْطِرْ (متفق علیه) کیا میں سفر میں روزہ رکھ لیا کرو۔ اور یہ بہت زیادہ روزے رکھنے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہو تو روزہ رکھو چاہو تو افطار کر لو۔ اگر دوران سفر روزہ کی شدت محسوس تو روزہ کھول دینا چاہیے۔ اس کی صرف قضا ہو گی، کفارہ نہیں۔ بیمار کا روزہ: رمضان المبارک میں بیمار کے لیے رخصت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے۔ اگر معمولی بیماری ہے تو رکھ بھی سکتا ہے۔ رمضان المبارک کے روزے کا اجر و ثواب غیر رمضان میں تو ملنا نا ممکن ہے۔ ان روزوں کی قضا وہ غیر رمضان میں دے گا۔ اگر مرض دائمی ہے۔ تندرست ہونے کی اُمید نہیں ہے تو ہر روز کسی مستحق مسکین کو کھانا کھلائے۔ اسی طرح کوئی بوڑھا انسان جو روزہ رکھ ہی نہیں