کتاب: رمضان المبارک احکام و مسائل - صفحہ 21
روزے کی رخصت
اسلام آسانی کا دین ہے۔ لوگوں کی طبیعت اور طاقت کا لحاظ رکھتا ہے۔ جہاں بھی کوئی حکم کسی کے بس سے باہر ہو ، وہاں ہی آسانی پیدا کر دی گئی یا رخصت دے دی گئی۔ نماز فرض کی گئی ہے، اگر کوئی بیمار ہے تو بیٹھ کر پڑھ لے، لیٹ کر پڑھ لے حتیٰ کہ اشاروں سے پڑھ لے ۔ اللہ تعالی قبول فرمانے والا ہے۔روزے بھی اللہ تعالیٰ نے ایک ماہ کے لے فرض کیے۔ اس میں بھی مجبور و بے بس کے لیے رخصت کے احکام موجود ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ۭ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۡ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ ﴾ (البقرة:۱۸۵)
’’اور جو کوئی ان دنوں میں بیمار ہو جائے یا مسافر ہو تو دوسرے دنوں میں اس گنتی کو پورا کرے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے، تنگی نہیں چاہتا (آسانی کا حکم اس لیے ہے) تاکہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ نے تمھیں جو ہدایت دی ہے اس کی بڑائی بیان کرو‘‘۔
ہر عاقل بالغ، تندرست اور مقیم پر روزہ فرض ہے۔ بیمار اور مسافر اگر اپنی مجبوری کی وجہ روزہ نہ رکھ سکیں تو ان دنوں روزہ چھوڑ دیں۔ اور رمضان کے بعد آیندہ رمضان تک کسی وقت بھی روزے رکھ کر اپنی گنتی کوپورا کر لیں۔رمضان کے روزے کا اجرو ثواب تو بیان ہو چکا اس سلسلے میں ارشاد نبوی ملاحظہ فرمائیں۔
مَنْ اَفَطَرَ یَوْمًا مِن رَمَضَانَ مِنْ غَیْر رُخْصَةٍ وَلَا مَرَضٍ لَمْ یَقْضِه صَوْمُ الدّهْرِ کُلِّه وَاِنْ صَامَ (ترمذی)
’’جو رمضان المبارک کا ایک روزہ بغیر عذر و بیماری کے چھوڑ دے تو ساری عمر اگر وہ روزے رکھے، اس ایک چھوڑے ہوئے روزے کا اجروثواب حاصل نہیں کر سکتا‘‘۔