کتاب: رمضان المبارک احکام و مسائل - صفحہ 18
اللہ کے ہاں قبول نہیں تو روزہ کہاں قبول ہو گا؟ ارشاد نبوی ہے:
کم من صَائِمٍ لیس له من صیا مه الا الظمأ و کم من قائِم لیس له من قیامه الا السهر (سنن دارمی)
’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنھیں اپنے روزے سے پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا اور کتنے ہی (راتوں کو) قیام کرنے والے ایسے ہیں جنھیں بیداری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔
واذا کان یوم صوم احدکم فلا یرفث ولا یصخب فان سابه احد اوقاتله فلیقل انی امرءٌ صائِم (بخاری)
’’جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ شہوت انگیز گفتگو نہ کرے اور نہ شوروغل کرے۔ اگر اسے کوئی گالی دے یا اس سے لڑائی کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘۔
روزہ کی حالت میں انسان کو گالی گلوچ، فضول گفتگو، غیبت، چغل خوری، دھوکہ و فریب، لہو و لعب کے سامان یعنی موسیقی، گانا بجانا، گندی فلمیں غرض ہر قسم کی لغویات سے اجتناب ضروری ہے۔ وگرنہ روزے کا اصل مقصد یعنی تقویٰ کا حصول ممکن نہیں ہے۔
روزے میں جائز امور:
جہاں کتاب و سنت میں روزہ کے مفاسد بیان کیے ہیں وہاں ہی روزے میں مباح امور بھی بتا دیے گئے ہیں۔
۱۔ روزہ دار خشک اور تر دونوں قسم کی مسواک کر سکتا ہے۔ مسواک کی لمبائی کا ایک بالشت کے برابر یا چھوٹا بڑا ہونے کا کوئی تصور کتاب و سنت میں نہیں ہے۔
۲۔ گرمی کی شدت میں ٹھنڈے پانی سے وضو اور غسل وغیرہ کر سکتا ہے۔ ٹوتھ پیسٹ یا منجن بھی استعمال کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس کا ذائقہ پیٹ میں نہ جائے۔