کتاب: رمضان المبارک احکام و مسائل - صفحہ 16
سحری کے مسائل سحری مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ دوسرے ادیان میں سحری نہیں ہے۔ سحری کھانا سنت مؤکدۃ ہے۔ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فصل ما بین صیا منا و صیام اهل الکتاب اکلة السحر (مسلم) ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں فرق سحری کا کھاناہے‘‘۔ سحری کھانے کی بہت تاکید کی گئی ہے بعض لوگ کھائے پیئے بغیر روزہ رکھنے کو باعث ثواب سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تَسَحَّرُوْافَاِنَّ فِی السُّحُوْرِ بَرَکَةٌ (متفق علیه) سحری کھایا کرو، سحری کھانے میں برکت ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: السَّحور کله برکة ولا تدعوه ولو ان یجرع احدُکم جُرعة مآءٍ فان اللّٰه عزَّوجَلَّ وملائکته یُصَلُّوْنَ عَلَی الْمُسَحِّرِیْنَ (احمد۔ ابن حبان) ’’سحری کا کھاناباعث برکت ہے۔ اسے نہ چھوڑو۔ اگرچہ پانی کے ایک گھونٹ ہی سے ہو۔ کیونکہ سحری کھانے والوں پر اللہ تعالیٰ رحم کرتا ہے اور اس کے فرشتے بخشش کی دعائیں کرتے ہیں‘‘۔ سحری رات کے آخری وقت تک موخر کرنا بہتر ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: لا تزال اُمتی بخیر ما عجّلوا الفطر واخَّرُوا السحور (مسند احمد) ’’میری امت اس وقت تک بھلائی میں ہے جب تک وہ افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرے گی‘‘۔ کھانا کھانے کے دوران اگر فجر کی اذان شروع ہو جائے تو ہاتھ میں پکڑی ہوئی چیز کھا سکتا ہے۔ عَنْ زَیْدٍ بن ثابتٍ رضی اللّٰه عنه قال: تَسحَّرْنَا مَعَ رسولِ اللّٰه ثُم قُمْنَا اِلی الصَّلَاة قیل کم کان بینهما؟ قال قدرُ خمسین اٰیةً (متفق علیه) ’’سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی۔ پھر ہم نماز کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ان سے پوچھا گیا: سحری کے خاتمے اور نماز کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ انھوں نے فرمایا: پچاس آیات پڑھنے کی مقدار‘‘۔