کتاب: رمضان المبارک احکام و مسائل - صفحہ 14
ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عن عبد الله بن عمر رضی الله عنهما قال قال رسول اللّٰه لاتصوموا حتی تروا الهلال ولا تفطروا حتّٰی تروه فان غُمَّ علیکم فاقدروا له (بخاری مسلم) عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چانددیکھولو اور نہ ہی افطار کرو حتی کہ تم اسے دیکھ لو۔ اگر مطلع ابر آلود ہو تو اس کے لیے گنتی کرو‘‘۔ عن ابی هریره رضی الله عنه قال قال رسول اللّٰه صُومُوا لِرُؤیته وافْطِرُوا لرویته فَاِنْ غمَّ علیکم فاکملوا عدّة شعبان ثلاثین۔ (بخاری،مسلم) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور دیکھ کر ہی افطار کرو۔ اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کی گنتی کے تیس دن پورے کرو‘‘۔ اگر کسی نے چاند دیکھ لیا ہے تو اس پر واجب ہے کہ ذمہ داران کو خبر کرے۔ خواہ یہ چاند رمضان کاہو یا شوال کا۔ اگر اسلامی حکومت کے ریڈیو یا ٹیلی ویژن نے روزے یا عید کے بارے اطلاع دی تو ان کی اطلاع کے مطابق روزہ رکھنا یا عید کرنا فرض ہے۔ صرف ایک مسلمان کی گواہی پر روزے شروع کیے جا سکتے ہیں۔ سیدنا عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایک اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: تو شہادت دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔کہنے لگا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو شہادت دیتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ کہنے لگا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بلال رضی اللہ عنہ ! لوگوں میں اعلان کر دو کہ کل روزہ رکھیں۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ رمضان کے چاند کے لیے تو ایک گواہی کافی ہے جبکہ عید کے چاند کے لیے دو مسلمانوں کی گواہی کی ضرورت ہے۔ اگر کبھی بادل کی وجہ سے شوال کا چاند دکھائی نہ دے اور روزہ رکھ لینے کے بعد معلوم ہو جائے کہ چاند نظر آ چکا ہے تو روزہ کھول دینا چاہیے۔ اور نماز عید کا اہتمام کرنا چاہئیے۔