کتاب: رمضان المبارک: مقاصد اور نتائج - صفحہ 9
سرزمین پر لاکر بسایا کہ اللہ کی تحمید و تقدیس بجالائیں۔ اللہ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ان کے عزیز فرزند کی قربانی طلب کی۔ باپ بیٹا دونوں نے اس قربانی کو پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے پیارے بندوں کی یہ مخلصانہ ادائیں کچھ اس طرح بھاگئیں کہ اس موقع کی ہر حرکت کو ہمیشہ کیلئے قائم کر دیا اور اس کو ہمیشہ دنیامیں زندہ رکھنے کیلئے اس موقع کی ہر ہر ادا کو پیروانِ دینِ حنیف پر فرض کر دیا گیا، اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر سال جب حج کا موسم آتا ہے تو لاکھوں انسانوں کے عمل سے اسوۂ ابراہیمی جلوہ نما ہوتا ہے، اور ان میں سے ہر متنفس وہ سب کچھ کرتا ہے جو آج سے کئی ہزار برس پہلے اللہ کے دو مخلص بندوں نے وہاں کیاتھا۔ یہی وہ دائمی بقا ہے جس کا ذکر یوں ہے: ﴿وَوَھَبْنَا لَہُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا وَ جَعَلْنَا لَھُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا﴾ (مریم:129) ’’ہم نے جناب ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو اپنی رحمت سے بہت بڑا حصہ دیا اور ان کیلئے اعلیٰ و اشرف ذکرِ خیر دنیا میں باقی رکھا۔‘‘ اسوۂ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حضور یہ دعا و التجا کی تھی کہ : ﴿ رَبَّنَا وَابْعَث فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیَاتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْہِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ﴾ (البقرۃ:129) ’’اے پروردگار! میری اولاد میں سے ایک ایسا رسول بھیج جو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے، کتاب و