کتاب: رمضان المبارک: مقاصد اور نتائج - صفحہ 8
اور وقائعِ زندگی کو اس لئے پیش کیا گیاہے کہ ان کی اقتدا کی جائے اور ان کے اسوۂ حسنہ کی تأسی (پیروی) کی جائے۔ انبیاء کرام میں سے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے اعمالِ حیات کو ایک خاص عظمت و شرف اور اہمیت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے اور لوگوں کو اس کے اتباع کی اس طریق پر دعوت دی،اور فرمایا: ( قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ اِبْرَاہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ) (الممتحنہ:4) ’’یقینا تمہارے لئے ابراہیم کی زندگی میں اور ان لوگوں کی زندگی میں جو ایمان کے اعلیٰ مدارج میں انکے ساتھ نظر آتے ہیں، پیروی اور اتباع کیلئے بہترین نمونہ ہے۔‘‘ جس طرح قرآنِ کریم نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مبارک زندگی کو بطور اسوۂ حسنہ کے دنیا کے سامنے پیش کیا، اسی طرح ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی اور اعمالِ حیات کو بھی اسوۂ حسنہ کے طور پر پیش کیا اور فرمایا: (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) (الاحزاب:21) ’’یقینا تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمالِ حیات میں بہترین نمونہ رکھا گیا ہے‘‘ یہی دو انبیاء ہیں جنہیں یہ شرفِ مخصوص حاصل ہے کہ قرآن نے انکی پاکیزہ زندگیوں کیلئے اسوۂ حسنہ کا لفظ استعمال کرکے دنیا کیلئے انہیں بہترین نمونہ کے طور پر پیش کیا اور انکے عملوں کو ہمیشہ کیلئے محفوظ کرکے ضائع ہونے سے بچا دیا۔ اسوۂ ابراہیمی علیہ السلام سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو بے آب و گیاہ