کتاب: رمضان المبارک: مقاصد اور نتائج - صفحہ 4
سید صاحب جولائی یا اگست 1895ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی، بعض دیگر اساتذہ سے بھی علمی اکتساب کیا، فارغ التحصیل ہونے کے بعد کچھ عرصے مدرسہ غزنویہ امرتسر میں مسندِ تدریس پر متمکن رہے، بعد ازاں تحریک خلافت کے زمانے میں سیاست میں آ گئے اور آزادئ وطن کی خاطر مختلف اوقات میں تقریباً دس سال پسِ دیوارِ زنداں رہے۔
سید صاحب 1961ء میں دل کے عارضے میں مبتلا ہوئے، علاج و معالجے کا سلسلہ چلتا رہا مگر 16 دسمبر 1963ء کو پڑنے والا دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا اور یہ عظیم المرتبت شخصیت اپنے معبودِ برحق سے جا ملی۔ اگلے دن جنازہ اٹھایا گیا، لوگوں کی کثیر تعداد شریک ِ جنازہ تھی، مولانا اسمٰعیل سلفی رحمہ اللہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور میانی صاحب لاہور کے قبرستان میں اس آفتابِ علم و عمل اور نمونہء سلف کو آسودہ خاک کیا گیا۔
ع۔ آسماں تیری لحد پر شبنم فشانی کرے۔
سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے حصولِ آزادی کی تمام تحریکوں میں حصہ لیا اور ملک کے صف اوّل کے رہنماؤں میں ان کا شمار ہوا۔ قید و بند کی بے پناہ صعوبتیں جھیلیں ان کی نیکی، مستقل مزاجی، قرآن و حدیث سے بے پناہ محبت، تقویٰ شعاری، سخاوت وجودت، اسلام سے بے پناہ تعلق اور آزادئ وطن کے لئے ایثار و قربانی کی شہادت اپنے اور بیگانے سبھی دیتے تھے۔
مولانا ظفر علی خان نے ایک موقعے پر سید صاحب کے لئے یہ شعر کہے۔ ؎
قائم ہے ان سے ملت ِ بیضاء کی آبرو