کتاب: رمضان المبارک: مقاصد اور نتائج - صفحہ 15
سے کم و بیش تو یہ بھی ایک ناقابل عمل چیز تھی، کیونکہ ہر ایک انسان کی اگرچہ ایک معتاد غذا ضرور ہے لیکن پھر بھی ہر شخص کو اپنی معتاد غذا کا ٹھیک نصف یا تہائی کرنا اور ایک لقمہ بھی کم و بیش نہ ہونے دینا قریباً ناممکن ہے، اور ثانیاً اس سے قانون اور ضابطہ کی وہ عمومیت جو اسکی سب سے بڑی صفت ہے، جاتی رہتی لہٰذا تقلیل غذا کی دوسری صورت اختیار کی، یعنی خوراک کے اوقات میں معتاد اوقات سے زیادہ فاصلہ جس سے بھوک اور پیاس محسوس ہو اور قوائے بہیمیہ کی پامالی ہو اور روح کو طہارت اور پاکیزگی حاصل ہو۔
اسلام نے اس بھوک، پیاس اور ترک لذائذ شہوانیہ کو اس قدر اور ناقابلِ عمل نہیں بنایا کہ یہ مقصود بالذات ہو جائے اور جو اصل مقصد ہے، وہ فوت ہوجائے۔ اس کیلئے ضرورت ہے کہ اسلامی عبادت و ریاضت کا دوسرے مذاہب سے مقابلہ کرکے دکھایا جائے تاکہ معلوم ہو کہ ارشاد ربانی ﴿یُرِیْدُ اللّٰه بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ﴾کس قدر اپنے اندر ناقابل تردید صداقت رکھتا ہے۔
دوسرے مذاہب نے تکلیف و تعذیب جسمانی کو بھی ایک قسم کی عبادت بلکہ بہترین اقسام عبادت میں سے قرار دیا ہے۔ اور اسی تخیل کا یہ اثر ہے کہ یہودیوں کے ہاں قربانی اس قدر طویل و کثیر رسوم پر مشتمل تھی جس کی صرف شرائط اور لوازمات کا بیان تورات کے چار پانچ صفحوں میں مذکور ہے۔ افطار کے وقت صرف ایک دفعہ کھاسکتے تھے، اس کے بعد دوسرے روز کے وقت افطار تک کچھ نہیں کھا سکتے تھے (یعنی مستقل سحری کھانے کی اجازت نہ تھی) اور اگر بغیر کھائے ہوئے بدقسمتی سے نیند آگئی تو پھر کھانا مطلق حرام