کتاب: رمضان المبارک: مقاصد اور نتائج - صفحہ 10
سنت کی تعلیم دے اور تمام ناپاک عقائد سے ان کو پاک کر دے۔‘‘
اللہ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول کی اور اس معلمِ کتاب و سنت کو مبعوث فرمایا اور دنیا کے سامنے ’’اسوۂ محمدی‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا۔ اس اسوۂ عظیمہ کا سب سے پہلا منظر عالم ملکوتی میں وہ استغراقِ تام تھا، جبکہ صاحب ِ سنت یا صاحبِ اسوۂ انسانوں کو ترک کرکے اللہ کی صحبت اختیار کئے ہوئے تھا اور انسانوں کے بنائے ہوئے گھروں کو چھوڑ کر غارِ حرا کے تیرہ و تاریک حجرے میں گوشہ نشین ہوگیا تھا۔ وہ اس عالم میں کئی کئی راتیں جمالِ الٰہی کے بے کیف نظارے میں بسر کرتا رہتا تھا تا آنکہ اس تنگ و تاریک غار کے اندر قرآن کا نور طلوع ہوا، اور اللہ کو اپنے پیارے بندے کی اس ماہ میں مخلصانہ عبادت، گوشہ نشینی، بھوک پیاس اور راتوں کو جاگنا کچھ ایسا پسند آیا کہ دنیا میں اسوۂ حسنہ کے طور پر اس کو ہمیشہ زندہ رکھا۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے دین حنیف کے داعی اوّل کے اسوۂ حیات کو دوا میت نجشی، اسی طرح دین حنیف کے آخری مکمل اور مَتمَّم وجود کے اسوۂ حسنہ کو بھی ہمیشہ کیلئے قائم کر دیا۔
آپ راتوں کو بارگاہِ الٰہی میں مشغولِ عبادت رہتے تھے، پس پیروانِ اسوۂ حسنہ او رمتبعین سنت ِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رمضان المبارک کی راتوں میں قیامِ لیل کرنے لگے اور تلاوت و سماعت ِ قرآن مجید سے وہ تمام برکتیں ڈھونڈنے لگے جو اس ماہِ مبارک کو قرآن حکیم کے نزول سے حاصل ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک تنہا گوشہ میں خلوت نشین ہوتے تھے۔ پس ہزاروں مؤمنین قانتین اس ماہِ مقدس میں اعتکاف کیلئے مساجد میں گوشہ نشین ہونے