کتاب: رجب کے کونڈوں پر ایک نظر - صفحہ 26
22تاریخ کو نہا دھو کر عقیدت کے ساتھ میرے نام کے کونڈے بھرے یعنی بازار سے نئے کورے کونڈے خرید کر لائے اور انہیں گھی میں تلی ہوئی میٹھی خستہ پوریوں سے بھرے پھر صا ف چادر بچھا کر کونڈوں کو اس چادر پر رکھے اور پورے اعتقاد کے ساتھ میرا فاتحہ کرائے اور میرا ہی وسیلہ پکڑ کراللہ سے دعا کرے تو اس کی ہر مشکل رفع اور ہر حاجت دم کے دم میں پوری ہوجائے گی اور اگر اس طرح کے عمل کے بعد بھی کسی کی مراد پوری نہ ہوتو وہ قیامت کے دن میرادامن پکڑ سکتا ہے اور مجھ سے اس کی باز پرس کرسکتا ہے آپ نے یہ سب کچھ ارشاد فرمایا اور پھر اپنے ہمراہیوں کے ساتھ وزیر کی ڈیوڑھی سے آگے بڑھ گئے(ا ب دیکھئے اور مسکرائیے کہ جس نے قصہ گھڑا ہے اس کا اصل مقصد حلوہ اور میٹھی خستہ پوریاں تھی اس نے ایسا مضمون بنایا تاکہ حلوہ اور خستہ پوریاں کسی طریقے سے آجائیں۔کہتے ہیں کہ مثل مشہور ہے کہ ’’بلی کو خواب میں چھیچھڑے کی یاد‘‘۔مُلّاں بیچارے کو بھی حلوہ یاد آتا ہے اس لئے جفاکشی کر کے یہ قصہ ٹھوکا ہے اور پھر کہتا ہے کہ کونڈے بھرنے سے اگر مراد پوری نہ ہو تو قیامت کے دن میرا دامن پکڑ سکتا ہے اور پوچھ گچھ کر سکتا ہے۔مزے کی بات ہے کہ قصہ بنانے والے نے کیسی ہوشیاری کے ساتھ کام لیا ہے کہ ویسے شاید لوگ کونڈے نہ بھریں،حلوہ کا شکار ہاتھ سے نکل جائے،اس لئے اس نے گارنٹی بیان کی ہے تاکہ کونڈے پکے ہو جائیں یعنی لوگ کونڈے ضروری بھریں۔یہ سب کیا ہے؟عربی کا مقولہ ہے کہ(بطن المرأ عدوہ)انسان کا پیٹ اس کا دشمن ہے۔بہر حال قصہ بنانے والے پر بڑی حیرت ہوتی ہے۔اس نے بڑی محنت کی ہے۔اس بیچارے کا قصور نہیں کیونکہ پیٹ کے لئے