کتاب: رجب کے کونڈوں پر ایک نظر - صفحہ 13
چپکے کھیر اور پوریاں کھاتے دیکھا تو معلوم کرنے پر انہی یہ کہہ دیا گیا کہ یہ ہم امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے نام کی نیاز ادا کرتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ لکڑہارے کی داستان چسپاں کرکے سنیوں کویقین دلانے کی بڑی کوشش کی گئی جہلاء اور خواتین نے اس رسم کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ رسم پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق داستان گو نے جو واقعہ بیان کیاہے اس دور میں مسلمانوں کادارالخلافہ ملک شام تھا جس میں مسلمانوں کے خلیفہ اور دیگر وزراء وغیرہ رہتے تھے مدینہ میں مرکز کی طرف سے صرف گورنر کا تقرر کیا جاتا تھا لہٰذا اس دور میں مدینہ طیبہ میں کسی بادشاہ وزیر وزیر اعظم اور شہزادے کادور دور تک کہیں نام و نشان نہ تھا اور یہی بات اس افسانہ کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے اور داستان گو نے بادشاہ وزیر اعظم وزیر اور شہزادے کانام تک ذکرنہیں کیا جیسا کہ مصنف نے یہ بات لکھی ہے اور یہ داستان گو کی کمال ہوشیاری ہے کیونکہ ان کے اسماء ذکر کرنے سے داستان گو کی داستان کا پول کھل جاتا پھر اس داستان کا ماضی کی کتابوں میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا کیونکہ اسے رام پور میں بیسوی صدی کی ابتداء میں وضع کیاگیا اس لئے ماضی کی کتابوں میں اس کا ذکر کیسے مل سکتا ہے؟اور اس داستان کے وضع کرنے والے روافض ہیں کیونکہ جھوٹ اور تقیّہ شیعیت کا اوڑھنا اور بچھونا ہے۔ اس داستان کے جھوٹا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس دور میں اسے تحریر کیاگیا یہ دور داستان گوئی کا دور کہلاتا ہے اور اس دور میں انتہائی دلچسپ حیرت انگیز اور دیومالائی قسم کی طویل کہانیاں اور داستانیں لکھی گئیں اسی دور میں قصہ چہار درویش،