کتاب: قائلین و فائلین رفع الیدین مسائل و احکام،دلائل و تحقیق - صفحہ 36
اب ایک ایسا راوی جس کے بارے میں محدّثین میں سے کسی سے بھی بسندِ صحیح تضعیف ثابت نہ ہو،اس کے بارے میں (ایسا جھوٹا راوی ہے ) کہنا بہت بڑی جسارت بلکہ شقاوت نہیں تو اور کیا ہے؟ دوسرے راوی عبد الحمید بن جعفر کے بارے میں علّامہ ماردینی کا انہیں (منکرالحدیث ) کہنا ہرگز ثابت نہیں ہے،بلکہ یہ ان پر بہتان ہے،کیونکہ علّامہ موصوف نے الجوہر النقی میں صرف اتنا کہا ہے: ( عَبْدُ الْحَمِیْدِ مَطْعُوْنٌ فِيْحَدِیْثِہٖ )۔ [1] ’’عبد الحمید کی روایت پر طعن کیا گیا ہے۔‘‘ اب یہاں (منکر الحدیث ) والی کوئی بات نہیں ہے،اور پھر طعن والی بات بھی اپنی جگہ صحیح نہیں ہے،کیونکہ خود علّامہ مار دینی رحمہ اللہ نے ہی انہیں اپنی اسی کتاب میں ایک دوسری جگہ ثقہ تسلیم کیا ہے۔ اور ان میں صرف (قدري) ہونے کا عیب شمار کیا گیا ہے۔ اور علمائِ اصول کے نزدیک یہ چیز کسی ثقہ راوی کی ثقاہت کیلئے مضرّ نہیں ہے۔ ایسے راوی کو (بریلوی حکیم الأمّت)کا غیر معتبر اور جھوٹا کہہ دینا انتہائی افسوس ناک بلکہ المناک ہے،کیا ایسی باتوں پر مبنی کتاب کے سرورق پر ایسا جملہ جچتا ہے جوکہ اس پر چھاپا گیا ہے؟[2] پھر اِن (حکیم الأمّت مفتی صاحب )نے تو اپنے مسلک کو ثابت کرنے کے لئے چارہ سازی کی حد ہی کردی ہے،حتی کہ قرآنی آیات میں تغیّر و تبدّل کرنے سے بھی باز نہیں رہے۔
[1] الجوھر النَّقی علیٰ البیہقی:۲؍۶۹۔ [2] تفصیل کیلیٔے دیکھیٔے : المرعاۃ شرح مشکوٰۃ:۲؍۳۰۸،۳۱۲،و ہفت روزہ اہلحدیث لاہور جلد :۲۳،شمارہ:۲۵ باب یکم محرّم ۱۴۱۳؁ھ ۳جولائی۱۹۹۲ ؁ء،مقالہ مولانا محمّدایّوب صاحب مظفّر گڑھی۔