کتاب: قائلین و فائلین رفع الیدین مسائل و احکام،دلائل و تحقیق - صفحہ 21
تک تو یہ رفع الیدین منسوخ نہیں ہوئی تھی،اوراِسی حدیث سے اس بات کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے کہ سورۂ مؤمنون کی ابتدائی آیات :
{قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ٭الَّذِیْنَ ھُمْ فِي صَلَوٰتِھِمْ خَاشِعُوْنَ٭}
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے مدینہ آنے سے پہلے نازل ہوچکی تھیں اور تفسیر ابن جریر طبری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے {خَاشِعُوْنَ } کا معنیٰ (سَاکِنُوْن) منقول ہواہے۔[1]
یہی لفظِ سکون حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح مسلم والی اس حدیث میں آیا ہے،جس پر نسخ ِ رفع یدین کے قائلین کو بڑا ناز ہے،حالانکہ حضرت مالک رضی اللہ عنہ والی اِس حدیث سے واضح طور پر یہ معلوم ہورہا ہے کہ رکوع کے اوّل وآخر والی رفع یدین سکون کے منافی ہرگز نہیں،کیونکہ سورۂ مؤمنون کی اِن آیات کے نزول کے بہت بعد تک بھی رفع یدین بطورِ سنت ثابت رہی،اور خلافِ سکون جو رفع یدین ہے،وہ سلام پھیرنے کے وقت والی ہے،جسے سرکش گھوڑوں کے دُم ہلانے سے تشبیہ دی گئی ہے۔اور اس بات کا پتہ بھی خود صحیح مسلم ہی سے چل جاتا ہے،جس کی تفصیل ہم قائلین ِ ترک و نسخ کے دلا ئل کے ضمن میں ذکر کریں گے۔
یہاں صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی سمجھتے ہیں کہ جس طرح تشہّد میں انگُشت ِ شہادت سے اشارہ کرنا،بوقت ِ قنوت ِ وتر رفع یدین کرنا اور اسی طرح ہی تکبیرات ِ عیدین کے ساتھ رفع یدین کرنا مانع ِ سکون نہیں،اسی طرح ہی یہ مسنون رفع یدین بھی مانع سکون نہیں ہے۔ اور قنوت و عیدین والی رفع یدین تو صحیح و مرفوع سند سے بھی ثابت نہیں،جبکہ رکوع والی رفع یدین کا پتہ دینے والی احادیث تو مرفوعاً صحیح و ثابت ہیں۔[2]
[1] تفسیر طبری :۴؍۲۱۹۔۲۲۰۔
[2] المرعاۃ:۲؍۲۷۱،المحلّیٰ:۵؍۱۱۶۔۱۲۸۔