کتاب: قائلین و فائلین رفع الیدین مسائل و احکام،دلائل و تحقیق - صفحہ 20
صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کیا۔[اور صحیح مسلم کی ایک روا یت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی کیا کرتے تھے ]۔‘‘
صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں نصر بن عاصم بیان کرتے ہیں کہ حضرت مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے :
(أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم کَانَ اِذَا کَبَّرَ رَفَعَ یَدَیْہٖ حَتّٰی یُحَاذِيَ بِھِمَا أُذُنَیْہِ،وَاِذَا رَکَعَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یُحَاذِيَ بِھِمَا أُذُنَیْہِ،وَاِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ فَقَالَ:سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ،فَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ )۔ [1]
‘’نبی صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ کے وقت کانوں تک ہاتھوں کو اٹھاتے تھے،اور جب رکوع جاتے تو بھی کانوں تک ہاتھوں کو اٹھاتے تھے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے اور سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ کہتے،تب بھی اسی طرح ہی [رفع یدین] کرتے تھے۔‘‘
یہ حدیث بھی رفع یدین کے منسوخ نہ ہونے اور سنت ِ ثابتہ و دائمہ ہونے کی قوی دلیل ہے،کیونکہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا ماہ ِ رجب ۹ھ میں ہوا،جو کہ غزوۂ تبوک کے ایّام میں بنتا؟؟؟ہے اور طبقات ابن ِ سعد وسیرت ابن ِ ہشام وغیرہ کتب ِ تاریخ و سیرت میں یہ بات ثابت ہے کہ جب وہ حاضرِ خدمت ہوئے،اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک کی تیاریوں میں تھے،جیسا کہ فتح الباری میں بھی مذکور ہے کہ وہ غزوۂ تبوک سے قبل اپنی قوم کے وفد کے ساتھ آئے تھے۔[2]
ظاہر ہے کہ ۹ ھ میں آئے اور اس وقت یا اس کے بعد انھوں نے یہ حدیث بیان کی،جس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ طیّبہ کے اس تقریباً آخری سال
[1] مسلم ایضاً۔
[2] طبقات ابن سعد بحوالہ فتح الباري:۲؍۱۱۰،۱۳؍۲۳۶،سیرت ابن ِ ھشام ۴؍۱۶۹،بتحقیق محمد محي الدّین۔