کتاب: قائلین و فائلین رفع الیدین مسائل و احکام،دلائل و تحقیق - صفحہ 18
یَسْتَثْنِ أَحَداً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلي اللّٰه عليه وسلم دُوْنَ أَحَدٍ)۔ [1]
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم رفع یدین کیا کرتے تھے،اور انھوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کو بھی اس سے مستثنیٰ نہیں کیا۔‘‘
ایک جگہ وہ لکھتے ہیں :
(وَلَمْ یَثْبُتْ عَنْ أَحَدٍ مِّنْ أَصْحَابِ رَسُوْل ِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم أَنَّہٗ لَمْ یَرْفَعْ یَدَیْہِ)۔[2]
’’کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی یہ ثابت نہیں کہ وہ رفع یدین نہ کیا کرتے ہوں۔‘‘
توگویا امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک رفع یدین پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع تھا،کیونکہ کسی ایک بھی صحابی رضی اللہ عنہ سے بسند ِ صحیح ثابت نہیں کہ وہ رفع یدین نہ کرتا ہو۔اور جن سے بعض روایات و آثار ملتے ہیں،وہ سندکے اعتبار سے صحیح نہیں یا پھرمُثبت و منفی میں سے مُثبت کے مقدّم ہونے والے اصول کی رو سے مرجوح ہیں۔[3]
علّامہ محمد ناصر الدین البانی نے بھی رکوع سے قبل و بعد والی رفع یدین کو متواتر قرار دیا ہے،اور آئمہ ثلاثہ سمیت جمہور فقہاء و محدّثین کا یہی مذہب بتایا ہے اور ابن عساکر (۱۵۔۷۸۔۲) کے حوالہ سے لکھا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا آخری مذہب یہی تھا اور امام ابو یوسفرحمہ اللہ کے ایک شاگرد عصام بن یوسف ابو عصمہ بلخی رحمہ اللہ اور بعض دوسرے علماء ِ احناف کا بھی یہی مذہب تھا۔ [4]
القاموس المحیط کے مصنّف علّامہ فیروز آبادی نے اپنی کتاب سفر السعادۃ میں لکھا ہے کہ کثرت ِ روایات کی وجہ سے حدیث ِ رفع یدین حد ِ تواتر کو پہنچ
[1] جزء رفع الیدین:(ص:۳۴،۴۸)۔
[2] جزء رفع الیدین:(ص:۳۴،۳۵،۴۹) نیل الأوطار:۳؍۳؍۹۔
[3] دیکھئیے تحقیق مشکوٰہ للألبانی ۱؍۲۵۴۔
[4] حاشیہ صفۃ الصلوٰۃ للألبانی:ص:۷۳۔