کتاب: قائلین و فائلین رفع الیدین مسائل و احکام،دلائل و تحقیق - صفحہ 11
(( فَمَا زَالَتْ تِلْکَ صَلوٰتُہٗ حَتّٰی لَقِيَ اللّٰہَ تَعَالیٰ ))۔ [1] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ سے جاملنے تک،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا یہی طریقہ رہا’‘ یہ الفاظ دعوائے نسخ پر کڑی زد ہیں،لیکن اس کی سند کے ایک راوی عبد الرحمن بن قریش بن خزیمہ کی وجہ سے یہ سند توپایۂ ثبوت کو پہنچنے سے رہ جاتی ہے۔[2] اگرچہ اس حدیث کا مفہوم صحیح اور مؤیّد بالصّحاح ہے۔ اِسی طرح ہی اس کے ایک دوسرے راوی عصمہ بن محمد پر بھی کلام کیا گیا ہے،اور اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ : عبد الرحمن بن قریش بن خزیمہ پر الزام ہے کہ وہ احادیث گھڑتے تھے،اور یہ الزام سلیمانی نے بیان کیا ہے،جیسا کہ میزان الاعتدال میں ہے۔اور سلیمانی کا یہ الزام محض الزام ہی ہے،اور علّامہ ذہبی نے انہیں (وَضَّاعٌ) یعنی[احادیث گھڑنے والا ] ہونے کا الزام نہیں دیا،بلکہ محض اتہام و الزام نقل کیا ہے،جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں : ( اِتَّھَمَہٗ السُّلَیْمَانِيُّ بِوَضْعِ الْأَحَادِیْثِ )۔ ‘’سلیمانی نے اسے احادیث گھڑنے والا کہا ہے۔‘‘ سلیمانی رحمہ اللہ کا یہ الزام محض الزام ہی ہے حقیقت نہیں ہے،کیونکہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اُن کی تعریف وتوصیف کی ہے۔ لسان المیزان میں ہے : ( لاَ یُسْمَعُ عَنْہُ اِلَّا خَیْراً ’’ان کے بارے میں خیر کے سوا کچھ نہیں سنا جاتا۔‘‘ اس طرح وہ الزام بھی کوئی جرح ِ قادح نہیں رہ جاتا،خصوصا ً جبکہ علّامہ زیلعی رحمہ اللہ نے
[1] تلخیص الحبیرللعسقلانی:۱؍۱؍۳۱۸،نصب الرایہ للزیلعی:۱؍۴۱۰،جزء رفع الیدین سبکی مع جزء امام بخاری : (ص:۸۶)۔نیل الأوطار للشوکانی:۲؍۳؍۱۰۔ [2] تحقیق صلوٰۃ الرسول صلي اللّٰه عليه وسلم حکیم مولانا محمد صادق سیالکوٹی وحافظ عبد الرؤف:طبع اوّل( ص:۲۷۳)۔