کتاب: قربانی کی شرعی حیثیت اور پرویزی دلائل پر تبصرہ - صفحہ 21
غور فرمائیے
کہ جب ذبح کا حکم ہی نہ ہوا تھا بلکہ خلیل اللہ نے منشاء الٰہی سمجھنے میں غلطی کی تھی تو اس پر تحسین و مرحبا کا کیا مطلب! یہاں تو چاہیئے تھا کہ فوری طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اجتہادی غلطی پر توجہ دلائی جاتی اور انہیں اپنے الہام کے اصل منشاء پر اطلاع دی جاتی۔ مزید غور فرمائیے کہ حضرت اسماعیل تو يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ کے الفاظ میں والد محترم کے خواب میں دیکھے نظارے کو امر الٰہی سے تعبیر فرما رہے ہیں، لیکن پرویز صاحب کس دیدہ دلیری سے قرآنی الفاظ کے برعکس کہہ رہے ہیں کہ : ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس قربانی کا حکم نہ دیا گیا تھا۔‘‘ (صفحہ نمبر 155)
قرآن دانی کا ماتم
پھر ان کا کمال اور ہاتھ کی صفائی ملاحظہ فرمائیے کہ اسماعیلی الفاظ ﴿افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ﴾ کا ترجمہ ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ’’ابا جان ، جس بات کا اشارہ آپ کو ملا ہے، اسے بلاتامل کر گزرئیے۔‘‘
ہم پرویز صاحب اور ان کے عقیدت مندوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ (تُؤْمَرُ) (سورۃ الصفت آیت: 102) کا معنی’’ اشارہ ملا‘‘ کس لغت میں